میری ماں
”اماں! کہاں ہے تو ؟ یہ کیسا سالن پکایا ہے؟ مجھے نہیں کھانا یہ بدمزہ کھانا۔“ فواد کی بات سن کر فردوس بھاگی آئی تھی۔ بیٹا! کیوں نہیں کھانا ؟ سالن تو بہت اچھا پکا ہے۔ تجھے ویسے ہی پسند نہیں۔ چلو خیر ہے، میں تمہیں انڈا بنا دیتی ہوں۔“ فردوس کی بات سن کر فواد بولا ۔ بس رہنے دیں۔ گو بھی گوشت اس قدر بدمزہ بنایا ہے، لگ ہی نہیں رہا کہ اس میں گوشت ڈالا ہے۔ انڈا بھی کون سا - آج بہت وی آئی پی بنائیں گی۔“ فواد کا موڈ سخت خراب ہو رہا تھا۔ اب صبح ہی کھاؤں گا کچھ۔ رات کو تھکے ہارے گھر آؤ
اور ایک کھانا بھی اس قدر برا۔ میرا تو دل گھبرا رہا ہے۔“ فواد یہ سب کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ فردوس بیگم وہیں موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔ فواد بہت اچھا تھا مگر اسے ماں سے بولنے کی ذرا تمیز نہیں تھی۔ فردوس بیگم نے بھری جوانی میں بھی اپنے شوہر کے گزر جانے کے بعد فواد اور اپنی تینوں بیٹیوں کی ہر خواہش پوری کی تھی۔ انہوں نے فواد کی تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ کیونکہ یہی ان کا واحد سہارا تھا۔ فواد نے بھی کبھی انہیں پڑھائی میں مایوس نہیں کیا تھا۔ وہ پڑھائی میں بہت ذہین تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے بہت اچھی سی نوکری مل گئی تھی۔ اس کی ماں نے اب اس کے لیے لڑکیاں دیکھنا شروع کر دی تھیں کیونکہ اسے اپنے بیٹے کی شادی کا بہت ارمان تھا۔ آج آفس میں سب کی پروموشن پارٹی تھی اور اس میں انچارج نے بطور خاص سب کے والدین کو مدعو کیا تھا۔ فواد نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی۔ دو ٹھیک ہے بیٹا ! میں تیار ہو جاتی ہوں۔“ پلیز اماں! پیارا سا سوٹ پہننا۔ وہاں سب بہت 4 ماڈرن ہیں۔ میں نہیں چاہتا مجھے شرمندگی ہو ۔“ فواد کی بات سن کر اس کی ماں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے اپنا سب سے پیارا سوٹ نکالا اور اچھے سے تیار ہو گئی۔ فواد جب تیار ہو کر آیا تو اپنی ماں کو دیکھ کر بولا ۔ اماں! آپ یہ کیا پہن کر کھڑی ہیں؟“ وہ ناپسندیدگی سے اپنی ماں کے کپڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ دو بیٹا ! اتنا اچھا تو سوٹ ہے۔“ خاک اچھا ہے۔ وہاں اس قدر ماڈرن ہیں سب کے والدین کہ کیا بتاؤں۔ آپ رہنے دیں، گھر رہیں۔ آپ کا حلیہ جانے والا نہیں “ فواد یہ کہہ کر باہر نکل گیا جبکہ فردوس بیگم جہاں تھی وہیں
کھڑی رہ گئی۔ جس اولاد کے لیے انہوں نے اپنی جوانی قربان کر دی تھی وہ انہیں یوں بولے گی، انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ آج فواد کی باتیں سن کر انہیں بہت دکھ لگا تھا۔ 5 اماں .....! ارے اماں! آپ کو پتہ ہے نا کہ میں ٹھنڈا پر اٹھا نہیں کھاتا، پھر بھی آپ نے مجھے ٹھنڈا پر اٹھا دیا۔ فواد کی بات سن کر فردوس بیگم کو بہت غصہ آیا تھا۔ دو منٹ پہلے ہی وہ ناشتہ بنا کر ہٹی تھیں۔ فواد ! اپنی حرکتیں ٹھیک کر لو۔ ہر وقت کی بدتمیزی اچھی نہیں ہوتی۔ کبھی تم پچھتاؤ گے۔ یاد کرو گے ماں کو ۔“ فردوس بیگم کی بات سن کر فواد منہ پھلا کر آفس چلا گیا۔ فردوس بیگم کو اب فواد کی باتیں سن کر بہت دکھ لگتا تھا۔ اس کی تینوں بیٹیاں یونیورسٹی جاتی تھیں۔ سارے گھر کے کام اس اکیلی کو ہی دیکھنے پڑتے تھے۔ مگر اس کے بچوں کو بالکل پروا
نہیں تھی۔ -- ”اماں! جب آپ کو پتہ؟ پتہ تھا کہ اس شرٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے تو کیوں آپ نے یہ شرٹ پریس کی؟ اب مجھے دیر ہو جائے گی۔“ فواد کا پارہ ہمیشہ کی طرح ہائی تھا۔ فردوس بیگم اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں اس لیے کہا۔ بیٹا! آج تم کوئی اور شرٹ پہن جاؤ ۔ کل میں ٹھیک کر دوں گی۔“ کیا مطلب دوسری پہن جاؤں؟ آپ مجھے ابھی اسی وقت اس کا بٹن ٹھیک کر دیں۔ مجھے نہیں پتہ ۔“ فواد کی طرف ایک تھکی تھکی سی نظر ڈال کر اس کی اماں سوئی دھا گا اٹھا کر اس کی شرٹ کا بٹن لگانے لگی۔ ا۔ فواد کو آج وہ کچھ ٹھیک نہیں لگی تھیں۔ لیکن اسے دیر ہو رہی تھی اس لیے وہ جلدی سے تیاری کر کے آفس آ گیا۔
فواد نے آفس سے جلدی چھٹی لے لی۔ جیسا بھی تھا، تھوڑا اکھڑ مزاج اور بد تمیز تھا مگر اسے اپنی ماں سے بہت پیار تھا۔ دو " مجھے ماں کو ہسپتال لے کر جانا چاہیے۔ وہ مجھے کچھ کمزور لگی ہیں۔“ وہ خود سے باتیں کر رہا تھا۔ ابھی وہ گھر سے تھوڑا دور تھا کہ اس نے دیکھا اس کے گھر کے باہر مجمع لگا ہوا ہے۔ یا اللہ ! خیر ہو۔“ بے اختیار ہی اس کے دل سے دعا نکلی تھی۔ اندر سے اس کی بہنوں کی رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ فواد کو اپنا وجود سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔ تو کیا ان کی ماں انہیں چھوڑ کر چلی گئیں؟ ہائے۔ یہ خیال ہی بہت تکلیف دہ تھا۔
یا خدا! کیا وہ مجھ سے ناراض ہی چلی گئیں؟“ وہ رو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی دنیا ہی لٹ گئی 8 ہے۔ آخر رہ کیا گیا تھا اس کا اس دنیا میں۔ ایک ہی مخلص رشتہ تھا اور وہ بھی. آہ نہیں۔ وہ کانوں پہ ہاتھ رکھے رو رہا تھا۔ اور ہاتھ 66 ”اماں نہیں “ فواد صاحب ! آپ کا پ ٹھیک تو ہیں نا ؟ فواد کی آفس بریک میں آنکھ لگ گئی تھی۔ اس دوران خواب نے فواد کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔ اس نے بے اختیار شکر ادا کیا کہ یہ سب محض ایک خواب تھا۔ اس نے آفس سے چھٹی لی اور گاڑی کا رخ گھر کی جانب موڑ دیا۔ اسے اپنے ہر غلط رویے کی اپنی ماں سے معذرت کرنی تھی۔ کیونکہ ایک خواب نے اسے سب سکھا دیا تھا۔ ماں کی اہمیت اس کی زندگی میں کیا تھی اسے آ گیا تھا۔ اس نے خود سے وعدہ کر لیا تھا کہ آئندہ کبھی بھی وہ
اپنی ماں سے اونچی آواز میں نہیں بولے گا۔ کیونکہ یہ سب کامیابیاں اسے اپنی ماں کی دعاؤں کی بدولت ہی تو ملی تھیں۔ پیارے بچو! دنیا میں سب سے مخلص رشتہ پتہ ہے کون سا ہے؟ ماں کا ۔ ماں کا نعم البدل تو کوئی اور رشتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے تم اور رشتہ ہو ہی کبھی بھی اپنی ماں سے بد تمیزی یا اونچی آواز میں بات مت کیا کریں۔ کیونکہ اس کی رضامندی سے ہی جنت اور دنیا میں کامیابی ملتی ہے۔ ماں کیا ہے یہ ان سے پوچھو جن کے پاس یہ انمول رشتہ نہیں۔ کیونکہ ان کے ماتھے پر بوسہ اور ان کے لیے دعائیں کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ کے پاس ماں جیسی انمول نعمت ہے اور اس کی قدر ۔ کریں۔
خوش نصیب
خوش نصیب ام فروا کون سی بچی ہے۔؟ مس فاطمہ صاحبہ جو کہ انگلش کی ٹیچر تھیں وہ اس وقت انگلش کے ٹیسٹ لیے کلاس میں موجود تھیں۔ آپ کے 20 میں سے 19 مارکس ہیں۔ باقی ساری کلاس کے تو برے حال ہیں۔ کسی کے پانچ سے اوپر نمبر نہیں گئے ۔“ مس فاطمہ، فردا سے بہت متاثر نظر آ رہی تھیں۔ فروا کی گردن بھی فخر سے بلند ہوگئی۔ ساری کلاس نگاہ جھکائے بیٹھی تھی۔ مس فاطمہ نے فروا کی شان میں کچھ اور قصیدے پڑھے اور ساری کلاس کے کو
نالائق کا طعنہ دے کر کلاس سے رخصت ہو گئی۔ تھرڈ ایئر کی پوری کلاس متاثر اور رشک بھری نظروں سے فردا کو دیکھ رہی تھی۔ مہر النساء جو کہ کلاس کی چلبلی لڑکی تھی وہ فوراً فردا کے ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی اور اس سے پڑھنے کے ٹائم ٹیبل کے بارے میں پوچھنے لگی تھی۔ ☆☆☆ کیا ؟ واہ بڑی خوش نصیب ہے فروا۔ اسکالر شپ آیا ، وہ بھی پورے 30 ہزار کا ایک گاؤں کی لڑکی ہو کر کس قدر ترقی کر لی ہے، واہ۔ ارے بس ساری بات قسمت کی ہوتی ہے۔“ مہر النساء اور زیب اس وقت سب کے درمیان بیٹھی فروا کے اسکالر شپ کے آنے کا سوگ منا رہی تھیں ۔ کیونکہ انہیں کبھی بھی ایک روپیہ تک نہیں ملا تھا۔ فردا آج کل خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ واقعی میں وہ سونے کا چیچ منہ میں لے کر پیدا ہوئی ؟ 12 تھی۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن اور ماں باپ کی لاڈلی ہونے کا وہ خوب فائدہ اٹھا رہی تھی۔ ”ہم سب کو بھی اب زیادہ پڑھنا چاہیے۔ پیپر سر پر ہیں۔“ نمرہ کی بات سن کر سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مگر مہر النساء، وہ ابھی تک سوچ رہی تھی کہ فروا کتنی خوش نصیب ہے۔ شیچ فون ... واہ، کتنے کا لیا ؟“ مہر النساء کو فروا اب اپنی دوست ماننے لگی تھی۔ وہ ویسے بہت اچھی تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ دوسروں سے کس تھا قدر حسد کرتی ہے۔ دس ہزار کا بہت مزہ آتا ہے اب۔ وقت کا پتہ ہی
نہیں چلتا ۔“ 13 فردا کے پیپر بھی بہت اچھے ہوئے تھے۔ وہ لوگ اب فورتھ ایئر میں تھیں۔ فروا نہ جانے اب اسے اور کیا بتا رہی تھی۔ مگر مہر النساء، وہ تو یہی سوچ رہی تھی کہ فروا کس قدر خوش نصیب ہے۔ آج فردا دو دن بعد کالج آئی تھی۔ اس نے کبھی چھٹی رہی حیرت تھی کہ بھلا فروا اور نہیں کی تھی۔ اس لیے سب کو ہی ۔ چھٹی؟ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ فروا کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی۔ وہ آج بہت کھلی کھلی لگ رہی تھی۔ سب کے پوچھنے پر فروا نے بتایا کہ دو دن پہلے اس کی منگنی ہو گئی ہے۔ سب نے اس کے منگیتر کی تصویریں دیکھیں۔ لڑکا کافی اچھا لگ رہا تھا۔ اور جس جگہ وہ رہتا تھا، ایک محل نما کوٹھی ، کار۔ واہ کس قدر خوش قسمت ہے فروا۔ ہر چیز اسے مل جاتی ہے۔ کسی قسم کی فکر نہیں ہے۔ مہر النساء، فروا کی لمبی چٹیا کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل
میں جل رہی تھی۔ کیونکہ اس کے بال سخت، کھردرے اور گھنگھریالے تھے۔ اسے ہر گزرتا دن فروا کی خوش نصیبی کا یقین دلا رہا تھا۔ 14 ☆☆☆ پیپر ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کو ہو لیے ۔ کیونکہ کالج بس 14 جماعتوں تک ہی تھا۔ انہیں آگے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی جانا تھا۔ ہر کسی کی خواہش الگ ہوتی ہے۔ سب کا ساتھ یہیں تک تھا بس ۔ اس کے بعد کئی سال گزر گئے ۔ مہرالنساء کو اتنا پتہ تھا کہ ۔ فروا نے پورے کالج سے زیادہ اچھے نمبر لیے تھے اور اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ اب یونیورسٹی جائے گی۔ مہرالنساء کو پرائیویٹ پڑھنا تھا۔ اسے بہت دکھ تھا کہ کاش وہ بھی فروا کی طرح خوش نصیب ہوتی۔ مگر وقت انسان کی سوچ بدل دیتا ہے۔
مہر النساء آج اپنی امی کے ساتھ بازار گئی تو اسے بازار میں فروا مل گئی۔ مہر النساء کو اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ مگر وہ پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ کالی رنگت، اُجڑے بال، گندا شکن آلود لباس۔ اس کی آنکھوں کی ویرانی نے مہر النساء کو پوچھنے پر مجبور کر دیا۔ آخر معاملہ کیا ہے؟“ فروانے اسے بتایا۔ گریجویشن کرتے ہی میری شادی ہوگئی تھی۔ میرا شوہر بہت زیادہ آوارہ انسان تھا۔ اس نے پہلے سے بھی شادی کر رکھی تھی۔ وہ مجھے مارتا اور ذلیل کرتا تھا۔ اس نے میری زندگی جہنم بنادی تھی۔ وہ مجھے بدصورت اور نہ جانے کیا کچھ کہتا تھا۔ مہر النساء جیسی بھی تھی اسے فروا کا بہت دکھ ہوا۔ اس نے اسے اپنا نمبر دیا کہ بعد میں تفصیل سے بات کریں گے اور چلی گئی۔ 16 مہر النساء دکھی دل سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ آخر یہی ے اسے جاتا رہی۔ یہی زندگی ہے۔ فروا کی ڈگریاں، اسکالرشپ، خوب صورتی سب ایک مرد کے زندگی میں آجانے سے بے معنی ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی کا نام قسمت ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو زندگی میں دکھوں اور خوشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہر النساء نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اسے اس قدر اچھے حالوں میں رکھا۔ آج اس کی سوچ کا زاویہ بدل گیا ہے۔ اللہ نے سب کو خوش نصیب ہی بنایا ہے۔ بس کسی کو پہلے خوشیاں ملتی ہیں تو کسی کو بعد میں ۔ مگر خدا سب کو برے تو کا وقت سے بچائے ۔ آمین !
0 Comments