urdu short stories |
سید نوازش علی کو تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔ سر میں شدید درد بھی تھا۔ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے ماتھا دباتے ہوئے ٹائم پیس پر نظر ڈالی ۔ سوئیاں دو بج کر پندرہ منٹ پر تھیں۔ وہ کراہتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے اور پیروں سے جوتیاں سیدھی کرنے لگے۔ " آپ کہاں چلے ؟ ان کی بیوی نے بچے کا کرتا اور سوئی دھا گا ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کا انتظام بھی کرنا ہے۔ صاحب نے آج اپنے کچھ دوستوں کو بلایا
ہے۔ سید صاحب نے ہتھیلیوں سے آنکھوں کا پانی پو نچھا اور کھڑے ہو گئے ۔ خاک ڈالیں اس موئی پارٹی پر ۔ بخار سے پھنک رہے ہیں۔ اس حالت میں کیسے کام کریں گے؟ کہلوا دیجیے میں بیمار ہوں ۔ بیوی نے جل بھن کر کہا۔ خاوند کی تکلیف کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھیں۔ وہ انہیں روکنے کے لیے کچھ اور کہنا چاہتی تھیں کہ کوارٹر کے باہر سے میم کی تیز آواز آئی: بیرا ! ویل! کڈر مر گیا ئم ؟ بولا آج بڑا بڑا صاحب لوگ آنا مانگتا ۔ میم کی آواز سن کر سید صاحب جو تیاں گھسیٹتے ہوئے
جلدی سے باہر آگئے اور ادب سے بولے: میم صاحب! بس میں آہی رہا تھا۔ آپ تشریف لے چلیے ۔ نماز پڑھ کر ابھی حاضر ہوتا ہوں۔" ویل ! ٹم کام چور بہانہ کرنا ۔ چلو ابھی امارا ساتھ، ابھی ۔ " میم نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔ سید صاحب نے کچھ اور کہنا مناسب نہ سمجھا، سر جھکا کر اس کے ساتھ چل دیئے۔ سوچا وقت نکال کر وہیں نماز پڑھ لوں گا۔ سید صاحب کی بیوی دروازے کی اوٹ سے یہ ساری باتیں سن رہی تھیں۔ میم نے جب ان کے شوہر کو کام چور اور بہانے باز کہا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ ان کا دل چاہتا تھا سید صاحب آگے بڑھ کر اس چڑیل کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کر دیں لیکن جب وہ سر جھکا کر اس کے ساتھ جانے لگے تو وہ نڈھال ہو کر پلٹیں اور چار پائی پر گر کر سکیاں بھرنے لگیں۔ انھیں اپنے اور اپنے شوہر کے خاندانی مرتبے کا حال پوری طرح معلوم تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے آنے سے پہلے
ان کے بزرگ اودھ کی اسلامی سلطنت میں بہت بڑے عہدے دار تھے۔ ان کی بہت بڑی حویلی تھی جس کے دروازے پر نوبت بجا کرتی تھی۔ انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو دوسرے غیرت مند مسلمانوں کی طرح ان کے بزرگ بھی تلواریں سونت کر انگریزوں کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ اودھ کی سلطنت مٹ گئی اور نواب واجد علی شاہ اختر کو قید کر مٹیا برج کلکتہ بھیج دیا گیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد بظاہر امن امان قائم ہو گیا لیکن انگریز حاکموں نے ان خاندانوں کو معاف نہ کیا۔ جنھوں نے ان کا مقابلہ کیا تھا اور ان خاندانوں میں سید صاحب کا خاندان
بھی تھا۔ انگریزوں نے ان کی شان دار حویلی اور ساری جائداد پر قبضہ کر لیا۔ بچے ہوئے لوگ مشکل سے اپنی جانیں بچانے میں کام یاب ہوئے اور ہوتے ہوتے اس حالت کو پہنچ گئے کہ سید نوازش علی انگریزوں کی بیرا گیری کر رہے تھے اور اس قدر بے بس تھے کہ ہیم اور صاحب کی کڑوی کسیلی با تین چپ چاپ سن لیتے تھے۔ میم کی طرح سید صاحب کو صاحب نے بھی ڈانٹا۔ وہ غصے بھری آواز میں بولا : "ویل بیرا! تم کو مالوم، آج بڑا بڑا صاحب لوگ ادھر آنا مانگتا۔ لیکن تم آج بھی کام چوری کرنا نگتا۔ ہم تم کو برخاس کرنا مانگٹا ۔ کوارٹر کھالی کرو اور ادھر سے بھاگ جاؤ۔"
سید نوازش علی کو یوں لگا کہ ان کے اندر اچانک ایک ایسا نوازش علی جاگ اٹھا ہے جس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور اس انگریز کی چھاتی پر چڑھ کر اس کا گلا کاٹ دینا چاہتا ہے۔ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کس لیں اور آگے بڑھ کر صاحب کی ناک پر زور دار مکالگانے کا ارادہ کیا۔ لیکن وہ قدم آگے نہ بڑھا سکے۔ انہیں یاد آ گیا کہ جو ہیرا ان سے پہلے کام کر رہا تھا اس پر اس انگریز نے چوری کا الزام لگا دیا تھا اور وہ اب تک جیل خانے میں پڑا سڑ رہا ہے۔ اسے پکڑنے والے پولیس کے سپاہی اور مقدمے کا فیصلہ کرنے والا مجسٹریٹ سب اس کے ہم وطن تھے لیکن کسی نے اس کی فریاد نہ سنی۔ صاحب نے اسے چور کہا تو سب نے اس الزام کو سچ مانا اور بے گناہ بیرے کو جیل خانے بھیج دیا۔ وہ لاحول پڑھ کر وہاں سے ٹل گئے اور اس بڑے کمرے میں آگئے جہاں مہمانوں کو بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کوٹی کے دوسرے نوکروں نے کرسیاں اور میزیں لگا دی تھیں، ہر
چیز کو خوب رگڑ رگڑ کر چکا دیا تھا اور اب بس اتنا کام باقی رہ گیا تھا کہ شراب، سوڈے کی بوتلیں اور پھل وغیرہ میزوں پر سجا دیے جائیں اور یہ کام سید نوازش علی کو کرنا تھا۔ کمرے میں آکر انھوں نے ایک ایک چیز کو غور سے دیکھا۔ بخار سے ان کا بدن تپ رہا تھا اور غصے سے دماغ پکتی ہوئی ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا۔ ان کے جی میں آئی کہ ساری میزوں کو الٹا دیں، کرسیوں کو توڑ دیں اور اس بدتمیز انگریز اور میم کا گلا گھونٹ دیں ۔ لیکن وہ اپنے غصے میں آپ ہی جلنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکے۔ چپ چاپ شراب کی بوتلیں اور دوسری چیزیں میزوں پر رکھنے لگے۔ ذرا دیر بعد مہمان آنا شروع ہو گئے اور دیکھتے دیکھتے کمرا عورتوں اور مردوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ صاحب اور میم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اس دعوت کے بارے میں کچھ باتیں کیں اور پھر مہمان کھانے پینے میں مصروف ہو گئے ۔ کمرہ
شراب کی بدبو سے بھر گیا اور قہقہے چیخوں میں بدلتے چلے گئے۔ لگتا تھا نشے کی وجہ سے ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ کسی کو نہ اپنے مرتبے کا ہوش تھا اور نہ اس بات کا اندازہ کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ سید صاحب دوسرے نوکروں کے ساتھ ایک طرف کھڑے تھے اور نفرت سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ان سب کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہاں حاضر ر ہیں اور اگر کوئی مہمان کوئی چیز مانگے تو فورا اس کی خدمت میں پیش کر دیں۔ بخار کی وجہ سے اب بھی ان کا بدن تپ رہا تھا اور سر کی تکلیف کچھ اور بڑھ گئی تھی، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف انہیں اس خیال سے ہو رہی تھی کہ قسمت نے انہیں کیسا ذلیل کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ پکے بچے مسلمان اور پانچوں وقت کے نمازی تھے لیکن انہیں حرام چیزیں صاحب کی میز پر لگانی پڑتی تھیں ۔ وہ
اور اس کی مہم بات بات پر انہیں جھڑ کیاں بھی دیتے تھے ۔ کالا لوگ کالا لوگ کہہ کر ان کی توہین کرتے تھے۔ لیکن وہ دل ہی دل میں کڑھنے کے سوا کچھ نہ کر سکتے تھے۔ کبھی ہوش آتا تو پہلے بیرے کا واقعہ یاد آ جاتا جس نے کسی بات پر صاحب کو سخت لجے میں جواب دے دیا تھا اور چوری کیے بغیر چور بن گیا تھا۔ اس وقت وہ اسی قسم کے خیالات میں الجھے ہوئے تھے۔ کبھی اپنے خاندان کی بڑائی کا خیال آتا تھا، کبھی اس حالت کا جس میں ان کی کچھ حیثیت ہی نہ تھی۔ وہ سونے لگے ، آخر یہ کیوں ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت مٹ گئی اور انگریز اس ملک کے مالک بن گئے ؟ یہ سوال پہلے بھی کئی بار ان کے ذہن میں آیا تھا اور انھوں نے اس کے الگ الگ کئی جواب سنے تھے۔ جمعے کے دن مولوی صاحب نے کہا تھا: "مسلمان ہندوستان کی حکومت سے اس لیے محروم ہو گئے کہ انہوں نے اسلام کے حکموں پر چلنا چھوڑ دیا تھا۔"
ایک لیڈر نے اپنی تقریر میں کہا تھا: ”مسلمانوں میں اتفاق نہ رہا تھا۔ وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ ایک اور لیڈر نے کہا تھا: "مسلمان آرام پسند ہو گئے تھے۔ ان میں بہادری نہ رہی تھی۔ یوں ان سے ان کی حکومت چھن گئی۔ سید صاحب انہی خیالوں میں بھٹک رہے تھے کہ ایک انگریز ہاتھ میں شراب کا گلاس لیے ان کے پاس آیا اور نشے میں بہکتے ہوئے بولا۔ : ویل مولوی ! لوٹم بھی پیو۔ کھولو منہ ۔ ہم اپنا ہاتھ سے پلا نا مانگا ئم کو
سید صاحب کو یوں لگا جیسے ان کی ناک کے سامنے گندگی سے بھرا ہوا ڈرم کھول دیا گیا ہو۔ شراب کی بدبو ان کے دماغ کو چڑھ گئی۔ وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولے: "پرے رہو صاحب! پرے رہو۔ میں یہ گندی چیز نہیں پیتا۔ میں مسلمان ہوں۔“ یہ سن کر دوسرے نوکر کھی کھی کر کے بننے لگے۔ جن انگریز مردوں اور عورتوں نے یہ منظر دیکھا تھا وہ قہقہے لگانے لگے۔ شرابی انگریز سید صاحب کی طرف اور بڑھ آیا اور شراب کا گلاس ان کے منہ سے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا : ویل مولوی ڈرو مٹ، ہم جانتا جب تک مسلمان شراب نئی پیئے گا ہمارا حکومت مضبوط انٹی ہوئے گا۔“ سید صاحب کو یوں لگا کہ ان کے اندر کا نوازش علی غصے میں بھر گیا ہے اور اس نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی ہے۔ انھوں نے شراب کے گلاس پر زور سے ہاتھ مارا اور کمرہ گلاس ٹوٹنے کی آواز سے گونج اٹھا۔ سب ان کی طرف دیکھنے لگے۔
شرابی انگریز نے گالی دی اور آستینیں چڑھانے لگا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ سید صاحب پر ہاتھ چلاتا ، انھوں نے ایک زور دار مکا اس کی ناک پر رسید کیا۔ وہ لڑکھڑا کر فرش پر گر گیا اور سید صاحب نے لاتوں اور مکوں سے اس کی مرمت کر دی۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا۔ حکومت اور شراب کے نشے میں بے ہوش انگریز یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ایک بیرا ضلع کے ڈپٹی کمشنر پر ہاتھ اٹھائے گا لیکن یہ سب کچھ ہو چکا تھا۔ پارٹی میں شامل انگریز کچھ دیر حیرت سے اپنے ساتھی کو پیٹتے ہوئے دیکھتے رہے اور پھر سید صاحب پر پل پڑے۔ جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی اسی سے انہیں مارنا شروع کر دیا اور اس وقت تک مارتے رہے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو گیا کہ وہ مر گئے ہیں۔
نو کر سید صاحب کو چار پائی پر ڈال کر ان کے کوارٹر میں لائے تو وہ بے ہوش تھے ۔ لیکن اس بے ہوشی نے ان کی روح کو ایک اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے بزرگوں کے محل کی اونچی ڈیوڑھی پر ایک مشعل روشن ہو گئی ہے. نوبت بیچ رہی ہے اور بڑھیا بڑھیا کپڑے پہنے ہوئے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کے زخمی چہرے پر عجب سکون تھا جیسے مسکرانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ نوکروں نے چار پائی کوارٹر کے صحن میں رکھی تو سید صاحب کی بیوی نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا۔ ایک نوکر بولا : ”بھائی جی! آخر اس بدنصیب نے اپنے کیے کی سزا پا ہی لی۔ اب یہ تو بچے گا نہیں تم اپنی جان بچاؤ۔ بچوں کو لے کر اسی وقت کوارٹر سے نکل جاؤ ۔ دو لیکن انہیں ہوا کیا ؟ بیوی نے سوال کیا۔
ہونا کیا تھا۔ اس نے ڈپٹی کمشنر بہادر پر ہاتھ اٹھایا اور تباہی کے غار میں گر گیا۔ نوکر نے یہ کہہ کر پورا واقعہ کہہ سنایا۔ نوکروں کا خیال تھا کہ سید صاحب کی بیوی رونے پیٹنے لگیں گی اور بچوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی تیاری کریں گی لیکن انگریز ڈپٹی کمشنر کے منھ پر مکا مارنے کی بات سن کر بیوی کے ہونٹوں پر یوں مسکراہٹ آگئی جیسے کوئی بہت اچھی خبر سنی ہو۔ انھوں نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر کا زخمی ہاتھ چوما اور خوشی بھری آواز میں بولیں: ”خدا کا شکر ہے، تم نے وہ کام کر دکھایا جس کا مجھے مدت سے انتظار تھا۔ ان شاء اللہ اب ہمارا وطن غلام نہ رہے گا۔ تم نے اپنے خون سے آزادی کی مشعل کر دی ہے۔ اب یہ شعل کبھی نہ بجھے گی۔ کبھی نہ بجھے گی۔“
0 Comments