urdu novels short stories |
ردا بیٹا ! یہاں ایسے منہ پھلائے کیوں بیٹھی ہو؟ اتنی پریشان اور اداس کیوں لگ رہی ہو؟“ اماں نے روا سے پوچھا۔ ردا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سکول سے واپس لوٹی تھی۔ یہ وہ ردا تو نہیں تھی جو صبح ہشاش بشاش گئی تھی ۔ کچھ پریشان، اداس ، منہ بنائے اپنے بستر پر براجمان تھی۔ ارے میں پوچھتی ہوں کیا ہوا ہے؟ کسی سے لڑ کر آئی ہو؟ ٹماٹر کی طرح لال منہ ہوا ہے۔ کچھ بتاؤ تو پتا چلے ۔ ردا کی امی پریشانی سے معاملہ کے متعلق استفسار کر رہی تھی۔ ردا تو ایسے جیسے منہ میں زبان ہی نہیں ہے، چپ ہو کر بس دیوار کو کتی جارہی تھی ۔ بالکل چپ چاپ، خاموش گو یا کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہو۔ امی کے بار ہا اصرار پر ردا کے آنسوں
نے قفل کھولا اور سیلاب کی مانند بہتے چلے گئے۔ " آہ ! میری بچی کیا ہو گیا؟ کیوں رو رہی ہو؟ " ردا کو روتے دیکھ کر امی کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔ کیوں میری جان لوگی؟ بتا کیوں نہیں دیتی کیا بات ہے؟ امی تو روہانسی ہی ہوگئی تھی۔ امی ! مجھے چودہ اگست کے کپڑے لیتے ہیں۔ ردا نے تو ایک دم سے جیسے ہم ہی پھوڑ ڈالا تھا۔ ہیں ! چودہ اگست کے کپڑے ؟ امی زدا کی بات کو نہیں سمجھی تھی۔ ہاں امی ! میری سب سہیلیوں نے چودہ اگست کی بھر پور تیاری کی ہے۔ جیسے کپڑے ویسے ہی جوتے اور زیورات بھی لیے ہیں
لیکن بیٹا یہ کوئی عید تو نہیں جو اس کی تیاری کی جائے ۔ امی ابھی تک بکی کی تھی۔ امی ! یہ خوشی کا دن ہے۔ اس دن ہمارا پاکستان وجود میں آیا تھا۔ ردا نے ایک نامکمل دلیل دینے کی کوشش کی۔ ہاں ! وہ تو ٹھیک ہے مگر اس کو ایسے کون مناتا ہے؟ اور کپڑے جوتے میری تو یہ سمجھ سے باہر ہے۔" بھی کچھ دن پہلے تو بڑی عید کی تیاری کی تھی تمھارے تو کپڑے بھی نئے ہیں وہی پہن لینا۔ امی ابھی تک ردا کی بات پر تعجب تھیں اور مخمصے کا شکار تھیں۔ نہیں امی !بالکل بھی نہیں۔ مجھے سبز اور سفید رنگ کے کپڑے لیتے ہیں، ویسا ہی جوتا اور چوڑیاں ۔ ردا اب ضد پر آگئی تھی۔ امی جان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ ردا کے ابو کے گزر جانے کے بعد اس کی امی محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتی تھیں۔ پہلے ہی وہ ردا کی
پڑھائی کے اخراجات بڑی مشکل سے برداشت کر رہی تھی کہ کل کو ردا پڑھ لکھ کر ان کا سہارا بنے گی لیکن وہ یہ سب سمجھنے کی بجائے اپنی سہیلیوں کی ہو بہو بنا چاہ رہی تھی ۔ ردا کو خود بھی اپنے معاشی حالات کا اندازہ تھا مگر آج وہ ضد پر اڑ گئی تھی۔ اس کے ذہن میں اپنی دوست مریم کی بات چپک کر رہ گئی تھی: ارے ! چودہ اگست ہم مسلمانوں کی تیسری عید ہے، اس لیے اس کو منانا فرض اور لازم ہے ۔ ردا کی امی سمجھ گئی تھی کہ ردا اپنی ہم جولیوں کی باتوں میں آگئی ہے۔ بیٹا ! کیا تمھیں پتا ہے یہ ملک پاکستان ہم نے کیسے حاصل کیا تھا؟" ہاں ! مجھے پتا ہے امی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ان
تھک محنتوں سے یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ ردا نے ناک منہ بسورتے ہوئے خطگی سے جواب دیا۔ ہاں الیکن علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر قائد اعظم نے کیا تھا اور مسلمانوں نے اپنی جان، مال اور عزتوں کی قربانی دی تھی۔ اس وطن کی مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ یہ دن خوشی کا تو ہے لیکن یہ عید ہر گز نہیں ہے بل کہ اس ایثار و جذ بے کو یاد کرنے کا دن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر ادا کرنے کا دن ہے کہ اس نے ہمیں آزاد ریاست دی جہاں ہم آزاد شہری کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ردا بہت دھیان سے امی جان کی باتیں سن رہی تھی۔ بیٹا ! یہ خرافات ہمارے ملک دشمن عناصر کے پیدا کردہ ہیں تا کہ ہم فضولیات میں مگن ہو کر اصل مقصد سے دور ہٹ جائیں۔ " تم مجھے بتاؤ، کیا اس مخصوص دن میں تمھارے سبز اور سفید رنگ کے کپڑے پہننے سے ملک کو کوئی فائدہ ہوگا؟“ کیا دشمن سے ایسے جیتا جا سکتا ہے؟ تم خود سمجھدار ہو، تمھیں اس بارے میں سوچنا چاہئے ۔"
امی ردا کو سمجھا کر اٹھ جاتی ہیں تا کہ وہ آرام سے اس معاملے پر غور و فکر کر سکے۔ ردا کا سر شرمندگی سے سر جھکا ہوا تھا۔ فضول بحث اور امی جان کو پریشان کرنے پر وہ پر ملال تھی۔ دل ہی دل میں امی جان کی شکر گزرا بھی تھی جن کی وجہ سے وہ ملک دشمن عناصر کے اوچھے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہی تھی۔
0 Comments