true story urdu |
چودہ اگست کی رات کا ابتدائی حصہ بیت رہا تھا۔ ہر طرف مکانوں کی منڈیروں پر روشنی ہی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ کہیں کہیں اونچی عمارتوں کی دیواروں پر بجلی کے رنگا رنگ بلب قوس قزح کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ وجیہ، ساحرہ اور انیزه و نے اپنے مکان کی چھت پر ایک سرے سے لے کر دوسرے آ سرے تک موم بتیاں جلا دی تھیں اور اب وہ فارغ ہو کر انکل عزیز کا انتظار کر رہے تھے۔ انکل عزیز ان کے کوئی رشتے دار تو لے نہیں تھے مگر چوں کہ ان کے ابا جان کے بہت اچھے دوست : تھے اس لیے وہ انہیں اپنا انکل ہی سمجھتے تھے۔۔ انکل عزیز گیارہ برس امریکا میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آگئے تھے اور آج رات کھانا ان کے ہاں کھا رہے تھے ۔ تینوں بچے بہت خوش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے
انکل ان کے لیے امریکا سے اچھے اچھے تحفے لائے ہوں گے۔ پہلے بھی انھوں نے دو مرتبہ انھیں امریکا سے تھے بھجوائے تھے ۔ تینوں بچے بار بار چھت کی منڈیر سے نیچے دیکھتے تھے کہ انکل کی گاڑی آئی یا نہیں ۔ جلد ہی دور سے انھیں ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ آ گئے ۔ تینوں بولے اور تیزی سے سیڑھیوں سے اترنے لگے۔ انکل عزیز نے سب کو پیار کیا۔ انھوں نے ان بچوں کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ بہت چھوٹے تھے۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر ابا جان بولے : ” میرا خیال ہے کھانا تیار ہے۔ پہلے کھالیں۔ پھر باتیں ہوں گی۔“ سب کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ کھانا کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔ انکل عزیز نے بچوں کو تجھے
دیے تو انھیں بہت خوشی ہوئی۔ بڑے خوب صورت اور پیارے تحفے تھے۔ " کیوں بھئی ! خوش ہو یہ تھے لے کر ؟ انکل عزیز نے پوچھا۔ یہ سن کر تینوں بیک وقت بول اٹھے : بہت بہت خوش ہیں۔ شکریہ انکل! دو تمھارے لیے ایک اور تحفہ بھی لایا ہوں ۔ یہ سن کر تینوں انکل کا چہرہ دیکھنے لگے۔ اب تم پوچھو گے کہ وہ تحفہ کیا ہے۔ پوچھو گے نا؟“ ”جی ہاں ۔ تینوں بول پڑے۔ جو تحفہ میں تمہیں دینا چاہتا ہوں وہ کوئی کھلونا یا اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک سچی کہانی ہے۔ سچی کہانی ؟ تو سنا یے انکل۔“ بھی نہیں! میں کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر چہل سے قدمی کرتا ہوں ۔ واپس آؤں گا تو میرے پاس آجانا۔“
تھوڑی دیر بعد انکل آگئے اور اپنے سونے کے کمرے میں - چلے گئے۔ بچے بھی وہیں پہنچ گئے ۔ تو اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ انکل چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے : اس کہانی کا آغاز 1947ء کے زمانے سے ہوتا ہے جب پاکستان اور ہندوستان دو آزاد ملک قائم ہو گئے تھے۔ یہ تمھاری پیدائش سے کافی پہلے کی بات ہے۔ تم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تو فسادات شروع ہو گئے ۔ مکانوں کو آگ لگائی گئی۔ ٹرینوں کو لوٹا گیا۔ بے گناہ لوگوں کو مارا گیا۔ بڑا ظلم ہوا ۔ انکل! ہماری کتاب میں ایک مضمون ہے۔ پاکستان کی کہانی، اس میں ایسی باتیں بتائی گئی ہیں۔ وجیہ نے بتایا۔
تو آگے سنو! امرتسر کے قریب ایک گاؤں سے مسلمانوں کے کئی خاندان بسوں اور بیل گاڑیوں میں پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ ہر ایک گاڑی میں دو دو تین تین ایسے مرد بھی سوار تھے جو ہتھیاروں سے لیس تھے۔ یہ اپنے لوگوں کی حفاظت کر رہے تھے ۔ ایک بیل گاڑی میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی ۔ یہاں ایک مرد کے علاوہ ایک عورت بھی محافظ کا فرض ادا کر رہی تھی ۔“ بصورت ! وہ کیسے ؟ انیزہ جھٹ بول پڑی۔ وہ عام عورت نہیں تھی۔ بندوق چلانا خوب جانتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بڑی بہادر اور جرات مند تھی۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ چلے جارہے تھے کہ دشمنوں کے ایک ٹولے نے انھیں دیکھ لیا۔ وہ ان پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ محافظوں نے ان کے ارادے بھانپ لیے اور انھوں نے اپنے ہتھیار سنبھال لیے۔ ایک دشمن یہ سوچ کر کہ ایک بیل گاڑی میں عورتیں اور بچے ہیں اور انھیں آسانی سے لوٹا اور مارا جاسکتا ہے، اس طرف بڑھنے لگا۔ محافظ عورت نے اسے اپنی بیل گاڑی کی طرف آتے دیکھا تو للکار کر بولی۔
خبردار! جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ، بھون کر رکھ دوں گی ۔ اس کی آواز میں اتنا جوش اور اتنی قوت تھی کہ دشمن بھونچکا ہو کر رہ گیا۔ خدا کا کرنا کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا۔ دشمن پاکستانی فوجیوں کو دیکھ کر بھاگ گئے اور سارے لوگ صحیح سلامت لاہور پہنچ گئے ۔ یہ عورت جب اپنی بیل گاڑی سے نیچے اتری اور اس نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ اس نے پاکستانی مٹی اٹھا کر چومی ، اپنی آنکھوں سے لگائی۔" پھر یہ ہوا کہ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ 1965
کے نمبر کا مہینہ آ گیا۔ اس مہینے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ اس زمانے میں یہ بہادر عورت ایک لمحہ بھی ضائع ہونے نہیں دیتی تھی۔ وہ گھر گھر قائد اعظم کا یہ پیغام پہنچاتی تھی: "خدا کی قسم ! جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحرہ عرب میں نہ پھینک دیں ہم ہار نہ مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے میں تنہا لڑوں گا۔ اس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ اگر کوئی ایسا وقت آ جائے کہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں اور جنگلوں، میدانوں میں، دریاؤں میں جنگ جاری رکھیں ۔“
قائد اعظم کا یہ پیغام سنا کر وہ پاکستانیوں کے دل گرماتی اور ان کے سینوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرتی رہی۔ اس نے عورتوں اور مردوں کا ایک گروپ بنا رکھا تھا۔ گروپ محاذ جنگ پر لڑنے والے پاکستانی سپاہیوں کو خوراک اور ضرورت کی چیزیں پہنچا تا تھا۔ یہ دلیر عورت ہر جگہ پہنچ جاتی اور اپنا فرض ادا کرنے میں ذرا بھی نہیں ڈرتی تھی۔ وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ خوف کیا چیز ہوتی ہے۔“ ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ فوجیوں کے کیمپ سے واپس آ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ کوئی دشمن زمین پر گرا ہوا ہے۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ ایک پاکستانی فوجی سخت یہ زخمی حالت میں بے ہوش پڑا ہے۔ ارد گرد کوئی نہیں تھا۔ اس کے ساتھی یا تو چلے گئے تھے یا کہیں اور اپنی ذمے داری پوری کر رہے تھے۔ معاملہ بڑا نازک تھا۔ اگر وہ کسی مددگار کا انتظار کرتی تو زخمی سپاہی کی زیادہ خون بہہ جانے سے موت واقع ہو جاتی ۔ اس نے اپنے بازو پھیلائے اور سپاہی کو اٹھا لیا۔
کافی بوجھ تھا مگر وہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ اسے اٹھا کر اپنی گاڑی تک لے آئی۔ اس کے باز دین ہو چکے تھے اور سانس لینے میں بڑی تکلیف محسوس کر رہی تھی۔ اب ڈرائیور نے بھی اس کی مدد کی اور زخمی سپاہی کو ہسپتال پہنچا دیا۔ پھر وہ بہادر عورت اپنا کام اسی طرح کرنے لگی جس طرح پہلے کرتی تھی۔ وہ اکثر زخمی سپاہی کے پاس بیٹھ کر اس کو تسلی دیتی رہتی۔ جنگ ختم ہو گئی ، زخمی سپاہی صحت یاب ہو کر گھر جانے لگا تو اس نے کہا: ”اماں! آپ نے میری جان بچائی ہے۔ میں آپ کا جتنا شکر یہ ادا کروں کم ہے۔“ دو نہیں بیٹا ! شکر یہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنی طرف سے وہ فرض ادا کیا ہے جو خطرے کے وقت ہر پاکستانی مرد اور عورت پر عائد ہوتا ہے۔ اللہ تمھیں پاکستان کی حفاظت کی توفیق دے۔“ وہ بولی۔ نیہ کہہ انکل خاموش ہو گئے ۔ آگے انکل؟" ساحرہ بولی۔
آگے بیٹی یہ ہوا کہ وہ بہادر عورت جنگ کے ختم ہونے کے پندرہ روز بعد فوت ہوگئی ۔“ فوت ہوگئی! ہائے اللہ “ “ انیزہ نے کہا۔ اور وہ سپاہی ؟“ وجیہ نے پوچھا۔ وہ سپاہی ریٹائر ہو کر امریکا چلا گیا اور اب گیارہ سان بعد اپنے پیارے وطن میں واپس آیا ہے ۔ " آپ انکل؟ سب حیرت سے بول اٹھے۔ ہاں! میں ہی وہ سپاہی ہوں جس کی جان اس بہادر عورت نے بیچائی تھی۔" بچے حیرت سے انکل کو دیکھ رہے تھے ۔
0 Comments