Top New latest complete urdu novels 2023 |
Top New latest complete urdu novels 2023
اگست کی جس زدہ گرمی میں ساری سبزیاں فریج کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ۔ آلو اور پیاز کچن میں رکھی ٹوکریوں میں موجود تھے۔ باقی سب سبزیاں آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ اچانک پالک اور شملہ مرچ تیزی سے فریج میں داخل ہوئے۔ بات سنو سبز یو! یہ سارے شہر کو ہرے رنگ کی جھنڈیوں سے کیوں سجایا جا رہا ہے؟ پالک نے اپنی ٹوکری میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ وہ شملہ مرچ کے ساتھ گھوم گھوم کر تھک گیا تھا۔ صرف جھنڈیاں ہی نہیں پاکستان کے بڑے بڑے جھنڈے بھی ہر گھر کی چھت پر نظر آرہے ہیں۔ بچے ، بڑے
سب جھنڈے کے ہم رنگ سبز اور سفید کپڑے زیب تن کیسے ہوئے ہیں۔ شہر کی ہر بیکری میں سفید اور سبز کیک تیار کیے جا رہے ہیں۔ سارا شہر ہمارے رنگ میں ڈوبا نظر آ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب لوگ میٹھی عید کے بعد سبز عید منا رہے ہیں ۔ شملہ مرچ نے خوش ہو کر ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔ سب سبزیاں حیرانی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھیں ۔ " کروانکل! کیا آپ اس بارے میں جانتے ہیں؟ پالک نے ساری تفصیل بتا کر بے چینی سے بزرگ سبزی کدو کو مخاطب کر کے پوچھا۔ نہیں پالک بیٹا! میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
اس سوال کا جواب کوئی بزرگ سبزی ہی دے سکتی ہے ۔ کدو انگل کے کہنے ہر سب سبزیاں مایوس ہو گئیں۔ مارے! پیاز انکل کو ضرور سبز عید کے متعلق پتا ہوگا ۔ چلو سب پیاز انکل کے پاس چلتے ہیں ۔" پھول گوبھی نے بلند آواز میں کیا تو سب اپنی اپنی نوکریوں سے باہر نکل آئے۔ شملہ مرچ گوبھی کے سبز عید کہنے پر مسکرانے لگی۔ ساری سبزیاں اس کی دی گئی مثالوں سے خوب لطف اٹھاتی تھیں۔ وہ سب فریج سے نکل کر کچن میں پڑی پیازوں کی نوکری کے پاس چلی آئیں۔ تم سب کو فریج میں سردی لگنے لگی ہے کیا؟ پیاز نے سب کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا۔ پیاز انکل اپورے شہر میں میلے کا سا سماں کیوں ہے؟" شملہ مرق نے پیاز کا سوال نظر انداز کر کے بے تابی سے پو چھا۔ شملہ مرچ کو ہمیشہ اپنے سوالوں کے جواب جاننے میں ایسے ہی جلدی ہوتی تھی۔
" آج چودہ اگست آزادی کا دن ہے۔ اس دن پاکستانی اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ یہ جشن ہر سال اسی جوش و خروش اور جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس لیے پورے شہر میں سبز ہلالی پرچم لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے لوگ سبز اور سفید رنگ کے لباس زیب تن کرتے ہیں۔ ملتی ننھے بچوں میں پاکستان سے محبت کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ یہ سن کر تمام سبزیاں حیرت زدہ رہ گئیں ۔ یہ آزادی کیا ہے؟ بھنڈی نے حیرانی سے پوچھا باقی سب بھی اثبات میں سر ہلانے لگے۔ وہ سب بھی اس سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے۔ برصغیر میں صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔
مسلمان اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ انگریزوں کا راج قائم ہوا تو اسلام اور مسلمانوں کی آزاد حیثیت کو نقصان پہنچا۔ غیر مسلموں کے اقتدار میں مسلمان مجبور اور محکوم ہو گئے تھے۔ انگریزوں کے قدم اکھڑنے لگے تو صاف نظر آ رہا تھا کہ برصغیر پر ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہو جائے گی اور مسلمان انگریزوں کی عارضی غلامی سے نجات پا کر ہندوؤں کی دائگی غلامی کا شکار ہو جائیں گے۔ اس لیے سرسید احمد خاں قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے تحفظ ، وقار اور آزادی کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ قائد اعظم نے تقسیم برصغیر کے حوالے سے فرمایا: ہمارے دلوں میں آزادی کی بے پناہ تڑپ ہے۔ ہم برطانوی تسلط سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس بات پر کبھی راضی نہیں ہو سکتے کہ ہمیں ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مسلمانوں کی مشکلات سن کر ساری سبزیاں آبدیدہ ہو گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے بہت تکلیفیں اٹھا ئیں ۔ بینگن نے کہا۔
یہ مشکلات تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ اصل مشکلات تو اس تحریک کے بعد شروع ہوئیں تھیں ۔ پیاز نے دُکھ سے کہا تو ایک بار پھر سب کی سوالیہ نظریں پیاز پر ٹک گئیں۔ پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ الگ وطن کا اعلان ہو جانے کے بعد مسلمان اپنے گھروں میں محفوظ نہیں رہے تھے۔ پاکستان کی پاک سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے انھیں اپنے گھر بار، مال و دولت اور یہاں تک کے اپنی اہل وعیال کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ ہجرت کے وقت ہندوستان میں خون کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ مسلمان
اپنی برسوں کی کمائی چھوڑ کر پاکستان پہنچنے کے لیے رختِ سفر باندھتے لیکن انہیں راستے میں ہی قتل کر دیا جاتا۔ اپنے پیاروں کو وطن پہ قربان کر کے جب بیچ جانے والے مسلمانوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس تکلیف میں بھی وطن کی مٹی پر سجدہ ریز ہو گئے ۔ سب سبزیاں آزادی کی روداد سن کر آبدیدہ ہو گئیں۔ ہم بھی جشنِ آزادی منائیں گے۔ کریلے نے عقیدت اور محبت سے کہا۔ پھر کریلے، بھنڈی، شملہ مرچ اور پالک نے مل کر فریج کو جھنڈیوں سے سجایا۔ ہرا دھنیہ بڑا سا سبز ہلالی پرچم لے آیا۔ پیاز سب سبزیوں کے لیے سبز اور سفید ٹو پیاں لے آیا۔ بینگن بڑا سا سبز کیک لے کر آیا جس پر چاند اور ستارا چمک رہا تھا۔ کیک دیکھ کر کرو بلند آواز میں دل دل پاکستان پڑھنے لگا اور ساری سبزیاں خوشی سے تالیاں بجانے اب باری باری ہر سبزی پاکستان کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ تا کہ آزادی کے دن کا حق ادا ہو جائے ۔ پیاز کے کہنے پر سب خوش ہو گئے ۔ ہر کوئی آج پاکستان سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
اب باری باری ہر سبزی پاکستان کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ تا کہ آزادی کے دن کا حق ادا ہو جائے ۔ پیاز کے کہنے پر سب خوش ہو گئے ۔ ہر کوئی آج پاکستان سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ پیارے دوستو! پاکستان بننے کی کہانی تو آپ سن چکے ہیں۔ اب ہم سب نے مل کر عزم کرنا ہے ہم اپنے پیارے پاکستان کا خیال رکھیں گے۔ آج سے کوئی بھی سبزی کوڑا کرکٹ ادھر اُدھر نہیں گرائے گی ۔ شملہ مرچ کی چھوٹی سی تقریر ہر کسی کو پسند آئی۔ ایک ایک کر کے سب سبزیوں نے پاکستان سے محبت کا اظہار کیا۔ آخری تقریر کدو کی تھی۔ پاکستان زندہ باد! کدو کی تین لفظی تقریرین کر پورا کچن زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔
0 Comments