Top New interesting stories in urdu for reading

interesting stories in urdu for reading
interesting stories in urdu for reading

interesting  stories

 پروفیسر انکل کی وہ عجیب و غریب گاڑی میرے سامنے تھی جس کا اگلا حفاظتی بمپرا تار کر انھوں نے اسے مزید نوک دار بنا دیا تھا۔ یہ کیا انکل؟ آپ نے اپنی گاڑی کو خوب صورت بنانے کی کوشش میں بالکل ہی بدصورت بنا دیا ہے۔ میں نے کہا تو انکل بولے : ” بے وقوف! یہ بدصورت گاڑی وقت کی رفتار سے زیادہ تیز چل سکتی ہے۔“

" کیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ انکل کی بات سن کر میں حیرت سے چلا اٹھا۔ کیوں بھئی ! کیوں نہیں ہو سکتا چھوٹے " پروفیسر ہو کر تو نہیں بنا ڈالی؟" انکل مسکرا کر بولے۔ " آپ نے یہ انگریزی فلم ” بیک ٹو دی فیوچر سے متاثر وشش " پروفیسر انکل نے ایک دم مجھے خاموش ہونے

کو کہا اور پھر آہستہ سے مسکراتے ہوئے ہوئے ہاں اسی انگریزی فلم سے متاثر ہو کر " " کیا مطلب؟ " میری زبان سے یک دم نکلا۔ دراصل میں نے یہ بات تو کافی پہلے ہی معلوم کر لی تھی کہ اگر کسی طرح ساؤنڈ بیریر کی طرح لائٹ بیر بر تو ڑ لیا جائے تو انسان یا وہ مشین توانائی میں تبدیل ہو کر کسی اور زمانے میں پہنچ سکتی ہے۔ لیکن ! سوال یہ تھا کہ اتنی رفتار تک کیسے پہنچا جائے اور اس کا حل مجھے اسی انگریز فلم سے ہی ملا تھا۔ انکل بولے۔ ود نہیں! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یعنی آپ کا مطلب ہے کہ ہم اب اس گاڑی میں سفر کر کے کسی اور زمانے میں بھی جا سکتے ہیں۔ میرے لہجے میں بے چینی نمایاں تھی۔ ایسا ہو سکتا ہے اور انشاء اللہ میں اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جاؤں گا لیکن اس بات کا ابھی کسی کو پتا نہ انکل پروفیسر نے یہ کہتے ہوئے جلدی جلدی گیراج کا دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ کر مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں ڈرتے ڈرتے گاڑی میں بیٹھ گیا۔

گاڑی کی اندر سے عجیب و غریب حالت تھی۔ ڈیش بورڈ میں سے درجنوں کی تعداد میں تاریں نکل کر پچھلی سیٹ پر جا رہی تھیں اور پچھلی سیٹ پر عجیب و غریب الیکٹرانکس کے آلات نصب تھے۔ کیا واقعی یہ گاڑی آپ کا مقصد پورا کرے گی ؟ مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔ ”بالکل ! یہ کہتے ہی پروفیسر انکل نے بسم اللہ پڑھی اور گاڑی اسٹارٹ کر کے گھر سے باہر نکال لی ۔ و لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں؟ میں نے گھبراہٹ میں  پوچھا۔ ارے میاں گھبراؤ نہیں ہم ماضی میں جائیں گے ۔ پروفیسر انکل مسکرا کر بولے۔ " کیا؟" جو نہی گاڑی مین روڈ پر آئی تو انکل پروفسر نے اللہ کا نام لیا اور گاڑی کی رفتار تیز کرنا شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی کی رفتار کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے گاڑی ہوا میں اڑنے والی ہو اس کے علاوہ گاڑی کے اندر بھی درجہ حرارت بڑھ گیا تھا۔ جوں جوں گاڑی کی رفتار تیز ہوتی جارہی تھی مجھے پکا یقین ہوتا جا رہا تھا کہ اب گاڑی کسی کھمبے سے ہی ٹکرائے گی ، یا پھر ایک دھماکے سے اڑ جائے گی۔ رہ رہ کر مجھے انکل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی غلطی کا احساس ہور ہا تھا لیکن انکل پر تو جیسے ماضی میں جانے کا جنون سوار تھا۔ انھوں نے کار کی رفتار کی رفتار مزید بڑھا دی ۔ شکل انھوں نے ایسی بنائی ہوئی تھی جیسے جنگی جہاز ایف سولہ کے پائلٹ یہی ہوں ۔ مارے خوف کے میں نے آنکھیں بند کر لیں پھر اچانک ایک زور دار دھما کا ہوا اور اس دھما کہ کے ساتھ ہی میری زبان پر خود بخود کلمہ جاری ہو گیا۔ ایک لمحہ کے لیے ہر طرف سفید روشنی پھیل گئی۔ پھر اگلے ہی لمحے میری آنکھوں کے سامنے ایک عجیب وغریب منظر تھا۔ وہ سڑک ، بتیاں ، عمارتیں، درخت سب کچھ غائب تھا اور ہماری گاڑی ایک کچے راستے پر بھاگی جا رہی تھی جس کے ارد گرد کھیت ہی کھیت تھے۔ پروفیسر انکل نے ایک دم پوری طاقت سے گاڑی کی بریکیں لگا کر اسے روکا۔ گاڑی تو رک گئی لیکن اس کے اندر گرمی بڑھ گئی تھی میں. ابھی گاڑی سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ انکل نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : " باہر نہ نکلنا ۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے ایک میٹر کی طرف اشارہ کیا جس کے شیشے سے گاڑی کے باہر کا درجہ حرارت پتا چل رہا تھا ۔ کیا ہم ماضی میں ہیں؟ میں نے انکل سے پوچھا۔ ”ہاں! کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ پروفیسر انکل گھبرا کر بولے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف نمایاں تھا۔ کچھ دیر بعد انکل نے پھر میٹر کی طرف دیکھا اور پھر مجھے باہر نکلنے کا اشارہ کر کے خود باہر نکل گئے۔ انہیں دیکھ کر میں بھی باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ دو پہر کا وقت ہے۔ لیکن اندر تو سب اندھیرا معلوم ہوتا تھا۔“ میں نے اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے گاڑی کی طرف دیکھا تو گاڑی کا شیشہ کافی حد تک سیاہ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ گاڑی کا رنگ بھی جگہ جگہ سے اس طرح غائب تھا جیسے کئی گھنٹوں تک آگ میں جلتی رہی ہو ۔ ہر طرف خاموشی تھی اور شدید گرمی۔

یہ کون سا علاقہ ہے؟ میں نے پوچھا۔ وہی، جہاں سے ہم چلے تھے۔ پروفیسر انکل نے جواب دیا ۔ لیکن وہ شہر ، عمارتیں ، سڑک ؟ میں نے گھبرا کر کہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ابھی تک تعمیر ہی نہیں ہوئے ۔ پروفیسر انکل نے جواب دیا۔ اب تو مجھے بھی کچھ کچھ یقین ہونے لگا تھا کہ ہم ماضی میں ہیں۔ اب کیا کریں؟ میں نے پھر ایک سوال کیا۔ پہلے تو گاڑی کے شیشے صاف کر کے اسے اس کھیت میں چھپا دیتے ہیں پھر کچھ اور سوچتے ہیں۔ پروفیسر انکل نے یہ کہا

اور گاڑی میں سے ایک کپڑا نکال کر میری طرف پھینک دیا۔ ابھی ہم نے شیشے صاف کر کے گاڑی کو کھیت میں چھپایا ہی تھا کہ کچھ فاصلے پر ایک قافلہ جاتا دکھائی دیا۔ میں اور پروفیسر انکل فورا ان کی طرف چل دیے تا کہ لوگوں سے مل کر کچھ معلوم تو ہو کہ ہم کہاں ہیں، کس سن میں اور تاریخ کیا ہے؟ ہم قافلے کے قریب پہنچے تو ایک بار پھر عجیب و غریب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ قافلے میں تقریبا ہر عمر کا فرد شامل تھا لیکن ان سب کی حالت بے حد خراب تھی ۔ قافلے میں صرف ایک نبیل گاڑی شامل تھی جس پر کافی سارا سامان لدا ہوا تھا۔ ہمیں آتا دیکھ کر ایک نوجوان ہماری طرف بڑھا اور آتے ہی اس نے سوالیہ انداز میں ہم سے پوچھا۔ مسلمان؟ میں نے پروفیسر انکل کی طرف دیکھا تو غالباً وہ بھی اسی سوچ میں گم تھے کہ اسے کیا جواب دیں۔ ابھی ہم خاموشن ہی تھے کہ وہ شخص ہماری طرف آیا اور بولا ۔ " لگتا ہے آپ بھی ہندوؤں کے ظلم سے رات کے وقت بھاگے ہیں ۔رات کے وقت بھاگنے کا مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آیا لیکن جلد ہی مجھے اس کا علم ہو گیا جب میں نے اپنے لباس کی طرف دیکھا۔ جلدی میں مجھے کپڑے بدلنے کا خیال ہی نہیں رہا تھا اور میں ابھی تک نیکر اور بنیان میں ہی تھا۔ "جی ہاں، کچھ ایسا ہی ہے۔ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ انکل نے پوچھا۔ جی میرا نام محمد علی اکبر ہے۔“ اس نوجوان نے بتایا۔ ہم بھی ہندوؤں کے ظلم و تشدد سے تنگ آکر پاکستان جار ہے ہیں۔ راستے میں دو بار ہندوؤں اور سکھوں نے ہم پر قاتلانہ حملے کیے۔ ہمارے بہت سے لوگ تو شہید ہو گئے کسی طرح ہم لوگوں کی جان بچی ہے۔" یہ کہتے ہوئے اس شخص کی آنکھوں. میں آنسو آگئے پھر آنسو پونچھتے ہوئے بولا : "خدا کا شکر ہے کہ اب ہم پاکستان کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی تک خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ لیکن خیر اب تو آپ بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔“ کچھ دیر بعد جب وہ شخص کسی کام سے آگے گیا تو میں نے انکل پروفیسر سے پوچھا: کیا واقعی ہم 1947 ء کے دور میں آگئے ہیں؟“ ہاں ! اس وقت ہم سن 1947ء میں ہیں اور یہ سب لوگ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں ۔“ برسوں سے جو کتابوں میں پڑھتا آ رہا تھا آج اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ قافلے میں شامل بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی حالت مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھی ۔ تقریباً ہر فرد کی بھوک سے بری حالت تھی۔ قافلے میں شامل چند لوگ تو بالکل قریب المرگ لگتے تھے لیکن وہ صرف اس اس پر قافلے کا ساتھ دے رہے تھے کہ ایک بار پاکستان دیکھ لیں ۔ ابھی ہمیں سفر کرتے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ اچانک درختوں کے پیچھے سے کوئی دس بارہ سکھ نکلے اور انہوں نے قافلے پر ہلہ بول دیا۔ ان میں سے ہر کسی نے چاقو یا تلوار پکڑ رکھی تھی ۔ انکل پروفیسر نے ایک دم مجھے ہاتھ سے کھینچا اور ایک کھیت میں چھپ گئے ۔ ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی اور ہمارے سامنے مسلمانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگنا شروع ہو گیا۔ بار بار دل کرتا کہ اٹھوں اور ان ظالموں میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑوں لیکن میں اور پروفیسر انکل بے بس تھے کچھ نہ کر سکے حملہ آوروں کے جانے کے بعد ہر طرف اتنی خاموشی ہوگئی جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں ہو، لیکن حقیقت میں تو یہاں قیامت گزر چکی تھی۔ ہر

طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور چاروں طرف خون ہی خون نظر آرہا تھا۔ پروفیسر انکل ایک عورت کی لاش کے پاس جا کر رک گئے ۔ میں ان کے قریب گیا تو بولے: جانتے ہوا بھی اس حملے سے کچھ دیر پہلے علی اکبر مجھے بتا رہا تھا کہ یہ عورت صبح سے اپنے بچے کی لاش اٹھائے چل رہی تھی کہ اسے پاکستان پہنچ کر ہی دفنائے گی۔“ یہ سنتے ہی میرے اوپر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے لیے کس قدر قربانیاں دی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ بھی اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتے ۔ شاید اس لیے کہ ہمیں پاکستان بیٹھے بٹھائے مل گیا ہم نے اگر قربانیاں دی ہو تیں تو یقینا اس کی قدر معلوم ہوتی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک جھاڑیوں میں سے ایک شخص باہر نکالا اور ہمارے قریب آکر بولا : میرا نام خالد ہے میں سکھوں کے حملے میں بچ گیا کیوں کہ میں آپ لوگوں کی طرح کھیت میں چھپ گیا تھا ۔" پھر اس نے اور بہت ساری باتیں کیں۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگا:

" آپ لوگ وہ نہیں جو نظر آرہے ہیں۔ آپ کون ہیں؟" "ہم مسلمان ہیں اور آپ ہی کی طرح پاکستان جارہے ہیں ۔ پروفیسر انکل بولے۔ جھوٹ ۔ آپ لوگ مسلمان نہیں اور نہ ہی اس قافلے کے ساتھ آئے ہیں آپ تو ثم ثم نما مشین میں بیٹھ کر آئے 44 ہیں۔ مشین ؟ پروفیسر صاحب بولے۔ ” ہاں ! میرے سامنے وہ مشین ایک زور دار دھماکے سے. نمودار ہوئی تھی اور میں نے اسے دیکھ لیا تھا کیوں کہ میں قافلے ے آگے چل رہا تھا۔" پہلے تو پروفیسر انکل نے ٹال مٹول کی کوشش کی پھر سارا قصہ سنادیا۔ اسے پہلے تو یقین ہی نہ آیا لیکن جب ہم نے اسے کھیتوں میں چھپی گاڑی اور اس کے آلات دکھائے تو اسے یقین آ گیا۔ پھر اس نے بتایا کہ اس کا نام خالد ہے اور وہ ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم سے بچ کر اپنے بھائی اور بیوٹی کے ساتھ اس قافلے میں شامل ہوا تھا جو پاکستان ہجرت کر رہا تھا۔ افسوس ! میرا بھائی اور میری بیوی میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے گئے اور میں کچھ نہ کر سکا۔" وہ شخص یہ کہتے ہوئے رونے لگا۔ میں نے اور انکل نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کرایا تو پوچھنے لگا: آپ لوگ مستقبل سے آئے ہیں مجھے یہ بتائیے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ابھی انکل کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ میں نے اس سے پوچھا۔

آپ کے خیال میں پاکستان کا مستقبل کیا ہوتا چاہیے؟ ”میرے خیال میں ... پاکستان کا مستقبل میرے خوابوں جیسا ہو گا۔ پاکستان ایک امن پسند اسلامی ملک ہوگا جہاں کوئی ظالم نہیں ہو گا۔ حکمران عوام کے محافظ ہوں گے۔ انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ لوگ خوش حال ہوں گے۔ امن و آشتی ہوگی۔ لوگ مل جل کر پیار ومحبت سے رہتے ہوں گے۔“ وہ شخص اپنی دھن میں مگن جانے کیا کیا کہتا جارہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس بے چارے کو کس طرح بتاؤں کہ چند ناعاقبت اندیشوں نے پاکستان قائم ہونے کے چند سالوں بعد ہی اس کا مستقبل تاریک کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے مقولے لڑاؤ اور حکومت کرو" پر عمل کرتے ہوئے بھائی کو بھائی سے لڑایا، نفرتوں کے بیج ہوئے ، انھوں نے انصاف کا خون کیا ظلم کو ہوادی، برائیوں کو پنپنے میں مدد دی، یہاں تک کہ کرسی کی لالچ میں آدھا ملک گنوا دیا اور " اور اب میں اس قسم کی باتیں سوچ ہی رہا تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جب خواب بکھر جائیں تو مستقبل تاریک ہی ہو جایا کرتے ہیں کہ اچانک وہ سکھ جنھوں نے قافلہ تباہ و برباد کیا تھا پھر شور مچاتے آن پہنچے ۔ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے کر پانوں سے انکل پروفیسر اور اس شخص کو مار ڈالا اور پھر وہ کر پانہیں سنبھالے میری طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ میں کسی چیز سے ٹکرا کر نیچے گر پڑا اور پھر میری آنکھ کھل گئی میں نے اپنے آپ کو بستر پر پایا۔ میں خواب دیکھ رہا تھا۔ اس خواب کو دیکھتے ہوئے مجھے کئی دن گزر چکے ہیں لیکن اس شخص کا سوال ابھی تک میرے ذہن میں گھوم رہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا ؟“ شاید اس سوال کا جواب میں، آپ یا کوئی اور شاید کوئی بھی نہ دے سکے۔

Post a Comment

0 Comments

Copyright (c) 2019 husband wife love All Right Reseved