small moral stories in urdu |
small moral stories in urdu
سعد اور اس کے دوستوں نے جشن آزادی پارٹی کی خوب تیاری کی تھی۔ ساری رات خوشی کی مارے سعد کی نیند تک اڑ چکی تھی۔ رات کے تیسرے پہر وہ تھوڑی دیر کے لیے سو گیا لیکن صبح سویرے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھا ، نہا دھو کر فریش ہوا اور پھر ناشتا کر کہ اسکول کی طرف نکل گیا۔ اسکول میں بھی تمام اساتذہ یوم آزادی کی نسبت سے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ بچے بھی بہت پر جوش سے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سعد بھی جا کر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ حمد ونعت کے بعد یکے بعد دیگرے تمام اساتذہ نے اس دن کی نسبت سے تقاریر کیں ۔ انھوں نے اس یوم آزادی کے دن لیے بہت اچھی اچھی باتیں کہیں۔
اس کے بعد اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی تقریر کے لیے اسٹیج پر تشریف لے آئے۔ پورا اسکول تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اللہ کا نام لے کر تقریر شروع کی۔ سب سے پہلے آزادی کی تاریخ بیان کی اور پھر آزادی کا صحیح مفہوم سمجھاتے ہوئے انھوں نے کہا: دیکھو بچو! اللہ نے ہم پر بہت کرم کیا ہے۔ ہمیں ایک آزاد وطن سے نوازا ہے۔ ہم اس وطن کی زمین پر کھل کر سانس لے سکتے ہیں، اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتے ہیں، اپنے شوق پورے کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ آج بھی ایسے بہت سے ملک ہیں جو غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں جن کی زندگی کا ہر لحد تکلیف زدہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس
آزاد فضا میں رہتے ہوئے حقیقی معنوں میں آزادی کو محسوس کریں۔ اس آزاد وطن کی قدر کریں لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ استاد صاحب تھوڑے توقف کے بعد پھر بولے تمام بچے انجاک سے سن رہے تھے۔ کہ ہم لوگ بجائے اس دن اللہ کا شکر ادا کریں، ایسے کام کرتے ہیں جو کہ ایک مہذب وطن ہونے کی حیثیت سے بالکل نہیں کرنے چاہیے۔ مثلاً پارٹیاں کرنا ، گانا باجا بجانا، فضول خرچیاں کرنا اور بھی دیگر ایسے کام جو کہ اس ملک کو آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ ہمیں تو چاہیے کہ ہم ہر دن اس وطن کو خوبصورت بنانے کی کوشش کریں۔ مثلاً درخت لگائیں تا کہ اس ملک میں ہریالی ہو۔ کچرا کوڑے دان میں پھینکیں تا کہ بیماریاں پیدا نہ ہوں۔ غربا کی مدد کریں اور ایسے بہت سے کام کریں جو ہمارے ملک کو ترقی سے نوازیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے لیے خاموش ہو گئے اور حاضرین کی طرف ایک نظر دیکھا۔ پورا اسکول انھیں سن رہا تھا۔ سعد اور اس کے دوست بھی اب ندامت کا شکار ہورہے تھے۔
پیارے بچو! وطن سے محبت یہ نہیں کہ ہلہ گلہ ڈھول گانا بجانا پارٹیاں ہوں بلکہ وطن سے محبت تو یہ ہے کہ ہر دم اس کی ترقی و حفاظت کے لیے دعا گو رہا جائے ۔ پڑھ لکھ کر ایسا کام کریں کہ رہتی دنیا تک قوم یا در کھے ۔ اس وطن کا ہم پر قرض ہے۔ اس نے ہمیں سکھ بخشا ہے، آزادی بخشی ہے۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کے خیر خواہ بن کر رہیں۔ یہاں بیٹھے تمام نوجوان اس وطن کا مستقبل ہیں۔ اگر کل آپ کچھ بن کر نکلیں گے، اس معاشرے کو سدھاریں گے ۔ پوری دنیا میں اپنے قوم کا نام روشن کریں گے تو آپ صحیح معنوں میں اس ملک کا حق ادا
کر پائیں گے۔“ وہ رکے اور مسکرائے۔ پھر انھوں نے پروجیکٹر پر ایک ویڈیو کلپ دکھایا۔ اس ویڈیو کلپ میں کچھ ممالک کے لوگ تشد دو غلامی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ بچو! ابھی جو آپ نے کلپ دیکھا یہ دنیا کے ان ملکوں کے ہیں جو آج بھی زیر غلامی ہیں۔ مجھے بتائیں کیا ہم ان سے لاکھ درجہ بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟ کیا اللہ کا ہم پر کرم نہیں ہے؟ کیا ہم اس آزادی کو شکر گزاری کے طور پر مناتے ہیں؟ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس وطن کی قدر کریں۔ آزادی کی اہمیت کو جانیں اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ یہ بات کہہ کر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی تقریر ختم کی اور اسٹیج سے اتر گئے ۔ سب نے کھڑے ہو کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ ہمیں آزادی کا اصل مفہوم سمجھنا چاہیے۔" جمشید نے بات کرنے میں پہل کی تھی۔ ”ہاں واقعی ! لیکن اب ہم اپنے آزاد ہونے کا جائز فائدہ اٹھا ئیں گے۔ اپنے وطن کی ترقی میں مل کر کام کریں گے ۔" مد نے مسکرا کر کہا تھا۔
ارے ایہ کچرا کوڑے دان میں پھینکو تم نے سنا نہیں بیڈ ماسٹر صاحب نے کیا سمجھایا ہے۔ ایک بچہ چپس کھا کر وہیں ر پر پھینک رہا تھا تو سند نے ڈپٹ دیا۔ تھوڑی دور کھڑے ہیڈ ماسٹر صاحب یہ منظر دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگے اور مسکراتے ہوئے بولے: شکر ہے ! بچوں کو آزادی کا اصل مفہوم سمجھ میں آگیا ۔
0 Comments