تیرہ سالہ ریحان پہلی مرتبہ پاکستان آیا تھا۔ وطن عزیز اتنا خوبصورت ہوگا یہ تو اس نے بھی سوچا ہی نہ تھا۔ عروس البلاد کراچی روشنیوں کا شہر اس کے سامنے تھا۔ بڑی بڑی سڑکیں ٹریفک کی گہما گہمی ، اونچی اونچی آسمان سے باتیں کرتی حسین و جمیل عمارتیں، شاپنگ سینٹر، ہوٹل اور تفریح گاہیں دیکھے کر کراچی اُسے لندن جیسا ہی لگا۔ بس فرق یہ تھا کہ لندن میں
تنگ سڑکیں تھیں مگر ٹریفک کا نظام ایک مخصوص سسٹم کے تحت رواں دواں تھا، جبکہ کراچی میں اس کا فقدان نظر آرہا تھا ۔ جس بات سے وہ بہت ہی زیادہ متاثر ہوا وہ جھاگ اڑاتا سمندر تھا۔ سمندر اس نے پہلے بھی دیکھا تھا مگر کبھی اتنی اپنائیت اور اپنا اپن اسے محسوس نہ ہوا تھا۔ سمندر کے کنارے ہاکس بے پر منائی گئی کمپنک اسے برسوں یاد رہنے والی تھی ۔ پھر مزے
مزے کے کھانے کھانوں کے رنگ ، ذائقے انوکھے تھے یا کوئی اور بات تھی یہ کھانے اس نے اکثر لندن کے ریسٹورنٹس وغیرہ میں کھائے تھے پر اتنا مزہ بھی نہ آیا تھا پاکستان اس کے خوابوں سے اس کی توقعات سے بہت مختلف تھا۔ کراچی سے وہ لاہور بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے ۔ یہ سفر بھی یاد گار تھا۔ مختلف اسٹیشن پر رکتی گاڑی، اس کا اپنے ڈیڈی کے ساتھ اترنا، مزے مزے کی چیزیں خرید نا ، یہ سب تو بہت ہی مزے کی بات تھی ۔ لاہور میں شاہی قلعہ، جہانگیر کا مقبرہ، بارہ دری اور کشتی میں دریائے راوی کی سیر ، بس مزہ ہی تو آگیا ۔ لاہور میں اس کے تین چار ہم عمر کزنز تھے جن سے پہلے وہ کبھی نہ ملا تھا۔ اس کی اردو میں روانی نہ تھی اس لیے شروع میں اسے وقت ہوئی مگر یہ مشکل جلد ہی دور ہو گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ پاکستان آنے سے اس کی اردو کافی بہتر ہوگئی ہے ۔ یہ بات اس کی نمی اور ڈیڈی نے بھی نوٹ کی ۔ لاہور سے
راوالپنڈی ، اسلام آباد اور پھر مری ہنتھیا گلی ، ایبٹ آباد سوات اور ناران کی حسین وادیاں ، سبزہ ہی سبزہ حسین مرغزار ، اونچے پہاڑ ، پہاڑوں کے بیچ چشمے ، شور مچاتے دریا حسین مناظر کی کثرت نے اسے مبہوت کر کے رکھ دیا شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی خصوصاً اس کے دل میں گھر گئی ۔ جہاں سے واپس جانا آسان نہ تھا ۔ اس کا جی بھی نہ چاہ رہا تھا لیکن اسکول کی چھٹیاں ختم ہونے کے قریب تھیں۔ اب واپس تو جانا تھا سو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی پر وہ سب بہت اداس تھا ۔ حسین نظارے
گنگناتی ہوئی وادیاں ، سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ ، شفاف نیلا آسمان ، سادہ لوح و جفاکش لوگ بھلا انہیں کون چھوڑ کر جانا چاہے گا اس نے ڈیڈی سے وعدہ لیا کہ وہ اسے اگلے سال پھر پاکستان لے کر آئیں گے۔ بات یہاں سے شروع ہوئی کہ اُس کے کلاس فیلو اور دوست جیری نے پوچھا تھا: ” پاکستان کا سب سے زیادہ خوبصورت علاقہ کون سا ہے؟ پاکستان کا سب سے خوبصورت علاقہ ؟ تھوڑی دیر کے لیے تو وہ گھبرا ہی گیا، پھر سنبھلتے ہوئے بولا : دراصل پاکستان سارے کا سارا اتنا خوبصورت ہے کہ کسی ایک علاقے کا نام لینا ذرا مشکل ہے۔" و پھر بھی کوئی ایک علاقہ تو ایسا ہو گا جہاں سب جانا چاہتے ہوں گے ۔ جیری نے اصرار کیا۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں ویلز اور اسکاٹ لینڈ کے علاقے اپنی قدرتی خوبصورتی اور حسن کے لیے مشہور ،، ،، ہیں۔ اس اعتبار سے تو شمالی علاقہ جات کا ہی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اس نے بتایا۔ یہ بات بھی اسے اچانک ہی
یاد آگئی تھی اس نے غالبا کسی کتاب میں پڑھ رکھا تھا ، شمالی علاقہ جات۔ ٹھیک ہے! میں اپنے ڈیڈی سے بات کروں گا ۔ اگر ہو سکے تو مجھے مزید معلومات ضرور دینا ۔“ جیری نے تاکیدا کہا۔ ریحان کو اپنے ڈیڈی سے بات کر کے خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہ زیادہ نہ جانتے تھے ۔ وہ لندن اس وقت آئے تھے جب ان کی عمر صرف پانچ سال تھی ۔ اس
کے بعد ان کا پاکستان جانے کا اتفاق دیس برس کی عمر میں ہوا تھا ۔ ان کی معلومات خاصی محدود تھیں۔ شمالی علاقہ بات کے بارے میں اس کی قدرتی خوبصورتی کے سوا، مزید کچھ معلومات مہیا کرنے سے انھوں نے معذوری ظاہر کی تھی۔ یہ ریحان ہی تھا جس کی کوششوں سے ان کا پروگرام پاکستان جانے کا بن سکا تھا۔ جیری، ریحان کے پاکستان کے سفر کے دوران کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کی ہوئی تصویروں کو سلیقے سے لگی البم میں دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ریحان سے سوالات بھی کرتا جارہا تھا جن کے جوابات ریحان خوش دلی سے دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی انجان جذبے سے چمک رہی تھیں ۔ ریحان میں نے کئی مہینے پہلے جب تم سے پاکستان کے بارے میں معلومات چاہی تھیں تو تم نے کچھ خاص نہیں بتایا تھا جبکہ آج تو تمھاری معلومات پر داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔ " جیری اسکی تعریف کرتے ہوئے بولا۔ اس کی وجہ تھی ، اس وقت میں خود پاکستان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا حالاں کہ میرے والدین کا تعلق وہیں سے ہے مگر اب میں پاکستان کے تمام اہم شہروں میں گھوم چکا ہوں اس لیے میری معلومات فرست رینڈ ہیں۔"
تو کیا معلومات سیکنڈ ہینڈ بھی ہوتی ہیں؟" جیری نے مصنوعی حیرت ظاہر کی۔ ”بالکل! کتابوں سے حاصل کی ہوئی معلومات ہوں یا انٹرنیٹ سے وہ فرسٹ ہینڈ نہیں ہوتیں۔ فرسٹ ہینڈ معلومات میرے نزدیک وہ ہیں جو انسان کی ذاتی کوشش اور تجربے کا نتیجہ ہوں ۔ ریحان کسی اور ہی ترنگ
میں تھا۔ جیری ایک اور بات بھی ہے ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد کا قول ہے جسے ہم حدیث کہتے ہیں اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی اور کو ایسے کام کی تلقین نہ کرو جو تم خود نہیں کرتے ۔ کیا مطلب امیں کچھ سمجھا نہیں ؟“ جیری الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔ میں سمجھاتا ہوں۔ تم جانتے ہو کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے اس لیے تم نے مجھ سے فرسٹ ہینڈ معلومات لینے کے لیے کہا۔ ورنہ کتاب اور انٹر نیٹ تک تو تمہاری رسائی یا آسانی ہو سکتی ہے ۔ اب یہ بے ایمانی اور بد دیانتی ہوتی کہ کتابوں تک اور محدود علم تمھیں یہ کہ کر بتا دیتا کہ یہ میں نے ذاتی تجربے سے حاصل کیا ہے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں ایسی باتوں سے منع کیا ہے۔ ریحان نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔ تمہارے پیغمبر تو پھر بڑے انسان ہوئے ۔“ ہاں وہ عظیم ترین انسان تھے ۔ ہمارے موادی صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق حضرت محمد ﷺ ہی کے لیے کی تھی ۔ اس کا لہجہ فخر یہ ہو گیا۔
اس کے بعد وہ جیری کو اسلام کے بارے میں کافی باتیں بتا رہا تھا۔ جیری پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ تھا۔ جیری جب ریحان کے گھر سے نکلا تو وہ پکا ارادہ کر چکا تھا کہ اپنے ممی اور ڈیڈی کو مجبور کرے گا کہ اگلے سال جب وہ ہالیڈے کے لیے انڈیا جائیں تو کچھ دن ریحان کے خوبصورت وطن پاکستان میں بھی ضرور گزاریں۔
0 Comments