motivational stories in urdu |
motivational stories in urdu
ماہ اگست کا آغاز ہوتے ہی ہر پاکستانی کے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ پر جوش انداز میں اجاگر ہو جاتا ہے ۔ نئے کپڑوں سے لے کر گھر کو جھنڈیوں سے سجانے تک کا جذبہ ہر پاکستانی کے دل میں ابھر آتا ہے۔ بارہ سالہ علی نے بھی چودہ اگست کی آمد کے لیے پیسے جمع کر رکھے تھے ان پیسوں سے وہ اپنے لیے نئے کپڑے اور گھر کو سجانے کے لیے جھنڈیاں لانے والا تھا۔ چودہ اگست کے حوالے سے سوسائٹی میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔ علی کے بڑے بھائی احمد نے میں تقریب میں قومی ترانہ پڑھنے کا حصہ لیا تھاوہ ہر دن اپنی بڑی بہن سے قومی
ترانہ سنا اور اسے یاد کرتا بہت سے بچے ملی نظہ اور ترانے پڑھنے والے تھے احمد کی آپی نے اسے کچھ منفرد کرنے کا کہا۔ بہن کی رائے اسے پسند آئی اور وہ کچھ منفرد کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ علی اور احمد کے ابوریٹا ئر آرمی آفیسر تھے اور طبیعت کے ذرا سخت تھے ۔ غلط بات اور غلط نظریہ وہ ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے ۔ وہ کچھ دنوں سے کسی کام کے سلسلے میں شہر کے باہر گئے تھے احمد اپنے ابو کی واپسی کا منتظر تھا کہ وہ کب گھر واپس آئیں گے اور احمد ان سے مدد حاصل کرے گا۔ دوسری طرف علی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر جھنڈیاں بنا. رہا تھا۔ سب لڑ کے اپنی سوسائٹی کے پارک میں اکھٹے ہوئے جھنڈیاں بنارہے تھے ۔ آسمان پر بادلوں کا راج تھا بادلوں نے سورج کو اپنی آغوش میں چھپارکھا تھا بادلوں کی مہربانی سے ہی موسم سہانا ہوا تھا ہوا میں بھی تیزی سے چل رہی تھیں ۔ بچوں کی بنائی جھنڈیاں تیز ہواؤں کے جھونکوں سے پورے پارک میں پھیل رہی تھیں ۔ بچے لا پروائی سے ان جھنڈیوں کو اٹھانا بھول کر نئی جھنڈیاں بنانے میں مصروف تھے۔ رحمان صاحب جب کالونی میں داخل ہوئے تو ان کی نگاہ زمین پر پڑی جھنڈیوں پر پڑی انھوں نے جھک کر اپنے راستے میں پڑی جھنڈیاں اٹھائی اور ایک نظر پارک میں اکھٹے ہوئے بچوں پر ڈالی جو جھنڈیاں بنانے میں مگن تھے ان پر سرسری کی نظریں ڈال کر رحمان صاحب اپنے گھر چلے آئے اور ہاتھ میں اٹھائی جھنڈیاں احترام سے محفوظ جگہ پر رکھ دیں۔ صدف نے ابو کو پانی دیا احمد کو جب ابو کی گھر واپسی کا معلوم ہوا وہ فورا ابو کے پاس آیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا:
" کچھ نیا اور منفرد کرنا چاہتے ہیں، تو ایسا کریں جس سے ہم جشن آزادی بھی منالیں اور جشن آزادی کا اصلی مطلب بھی جان جائیں ۔ والد کے جواب پر احمد مسکرایا اور تقریب میں شرکت کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ علی گھر واپس آیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دو دن بعد چودہ اگست کا ایک عظیم دن تھا اسی عظیم دن ہمارے قائد اور ان کے ساتھیوں کی بدولت ہمیں آج آزادی کی سانس لینا نصیب ہو رہا ہے۔ علی اور اس کے دوستوں نے پوری سوسائٹی کو جھنڈیوں اور لائٹوں سے سجا دیا تھا مگر وہ ایک اہم کام کرنا بھول گئے تھے ۔ رحمان صاحب سب بچوں کی محنت اور ان کی لاپروائی کو نوٹ کر رہے تھے۔ شام کے وقت جب سب بجے اکھٹا ہوئے کھیل رئے تھے جب رحمان صاحب نے بلند آواز میں پکار کر سب بچوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان سے آزادی کے حقیقی معنی پوچھنے لگے : " آزادی کیا ہے؟" سب بچوں نے ٹھیک جوابات دیے کہ آزادی کے معنی آزاد ہونے کے ہیں ایک وطن میں رہ کر اپنے اپنے مذہب کی عبادت بنا کسی خوف کے کرنا آزادی ہے۔ " ہم اپنے ملک کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ رحمان صاحب نے ایک اور سوال ان سے پوچھا۔ اپنے وطن کو دشمنوں سے محفوظ رکھ کر ہم وطن کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔ علی نے جواب دیا۔ رحمان صاحب باقی بچوں کی بھی رائے کے منتظر تھے مگر جب کسی نے جواب نہیں دیا تب رحمان صاحب نے جھک کر زمین پر پڑی جھنڈی اٹھائی اور اس پر لگی مٹی صاف کی اور کہا: اپنے ملک کو صرف دشمنوں سے پاک کرنے سے ملک کی حفاظت نہیں ہوتی۔ بچو! ملک کی حفاظت کے بہت طریقے ہیں جیسے ملک کو گندگی سے دور رکھنا۔ کیا آپ سب بچے اپنے وطن کو صاف رکھتے ہیں اپنی استعمال شدہ چیزیں کوڑے کے ڈبے میں پھینکتے ہیں؟ رحمان صاحب کے سوال پر سب بچے ایک دوسرے کو شرمندہ نگاہوں سے دیکھنے لگے اور اپنے اس پاس پھیلے گند کو بھی جو انھوں نے خود ہی جھنڈیاں لگاتے وقت پھیلایا تھا۔ علی کے اشارہ کرنے پر اس سمیت سب بچے زمین پر کچھیلا کوڑا اٹھانے لگے کوڑے کے ساتھ وہ جھنڈیاں بھی اکھٹی کر رہے تھے بچوں نے کوڑے کے ساتھ جھنڈیاں بھی کوڑے دان میں ڈال دیں ۔ دور کھڑے رحمان صاحب کو بچوں کی اس حرکت پر سخت افسوس ہوا۔ جھنڈی کی اہمیت کیا ہے؟ شاید وہ نہیں جانتے تھے۔ چودہ اگست کی تقریب کے لیے رحمان. صاحب نے سب بچوں کو جھنڈے کی اہمیت پر کچھ جملے لکھنے کا کہا اور ساتھ انعام بھی رکھا تا کہ سب بچے جوش سے حصہ لیں۔ بچوں کے جانے کے بعد احمد اپنے والد محترم کے پاس آیا اور کوڑے سے ساری جھنڈیاں نکالیں۔ احمد کی سمجھداری پر رحمان صاحب کو اپنے بیٹے پر فخر محسوس ہو۔ احمد نے سوسائٹی کے ہر گھر میں پاکستان کی تاریخ پر لکھی گئی ایک ایک کتاب قسم کی ۔ مقصد یہی تھا کہ وہ پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر دوڑا ئیں۔ چودہ اگست کا دن پورے ساتھ میں بڑے دھوم دھام میں منایا جا رہا تھا۔ سوسائٹی کے بچے قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے ۔ قومی پرچم کی اہمیت پر بات کرتے وقت ارسل نے بتایا: پرچم میں سبز رنگ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سفید دھاری اقلیتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہلال اسلام کی علامت ہے اور پانچ کونوں والا ستارہ پانچ ارکان اسلام کی علامت ہے۔ پرچم پاکستان کی اصل بنیاد آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم پر ہے۔
بچوں کی اپنے وطن کے بارے میں معلومات سن کر رحمان صاحب کو خوشی ملی مگر وہ بچوں کو اپنے عظیم پرچم کی ایک اہم بات سے آگاہ کرتے بولے۔ پیارے بچو ا جب تم سب اپنے وطن کے پرچم کی اہمیت کے بارے میں جانتے ہو تو اس پرچم کی حفاظت کیوں نہیں کر رہے؟ یوں جھنڈیوں کا زمین پر پڑا رہنا آپ کو مناسب لگتا ہے؟ جھنڈیوں کی جگہ زمین پر نہیں ہمارے دلوں میں ہے۔ اس پرچم کی حفاظت اور اسے بلندیوں پر دیکھنے کے لیے. ہمارے بزرگوں نے اپنی جان کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کیا اپنے وطن کے پرچم کی خاطر اپنے ملک پر قربان ہو گئے، یہ پرچم عام پرچم نہیں ہے بلکہ ہمارے بزرگوں کے خون پینے سے ملی جرات کی نشانی ہے۔ اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ رحمان صاحب کی تقریرین کر سب بچے خوشی سے مسکرائے اور عہد کیا کہ آئندہ کے بعد وہ گھروں اور سڑکوں پر جھنڈیاں لگاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں گئے کہ جھنڈیاں زمین پر نہ کر سکیں۔ اس عہد کا آغاز علی سے ہوا جب ہوا کہ تیز جھونکے سے جھنڈی چھت سے اڑتی ہوئی زمین پر آ رہی تھی علی نے اپنا ہاتھ جھنڈی کی طرف بڑھا کر اسے زمین پر گرنے سے بچالیا۔ ہر طرف ایک ہی نعرہ گونج اٹھا۔ آزادی مبارک!
0 Comments