latest complete urdu novels 2023

latest complete urdu novels 2023
latest complete urdu novels 2023

 عکراش اور عائش آج بہت بے صبری سے دادا جان کا انتظار کر رہے تھے۔ دادا جان کے آنے کا وقت ہو چکا تھا اور آج انھوں نے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں کہانی سنائیں گے ۔ لہذا عشاء کی نماز کے بعد سے ہی دونوں بھائی دادا کا انتظار کر رہے تھے ۔ دروازے کی گھنٹی بجتے ہی عکراش اور عائش دوڑتے ہوئے دروازے تک پہنچے۔ دادا جان جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے دونوں نے سلام کیا۔ دادا جان نے سلام کا جواب دینے کے بعد دونوں بچوں کا پیار کیا۔ دادا جان کی عادت تھی کہ بچوں کو اچھے اخلاق سکھانے کے لیے عملی تربیت دیا کرتے تھے اس لیے انہوں نے بچوں سے کہا کہ پہلے وہ اس کمرے کی صفائی کریں جہاں وہ کھیل رہے تھے۔ دونوں بچے صفائی میں لگ گئے اور دادا جان بھی صفائی میں ان کا ساتھ دینے لگے۔

صفائی کے دوران دادا جان کی نظر دس روپے کے چند نوٹوں پر گئی جو انتہائی بوسیدہ حالت میں صوفے کے نیچے پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے دونوں سے سوال کیا: یہ نوٹ یہاں اس حالت میں کیوں گرے ہوئے 35 ہیں ؟ " ہم لوگ سودا خرید نے والا کھیل رہے تھے ، شاید تبھی یہ نوٹ گر گئے ہوں گے ۔ عکراش نے جواب دیا۔ شفقت سے انہیں سمجھانے لگے : و لیکن یہ تو ان نوٹوں کی بے ادبی ہے۔ دادا جان نے کہا۔ یہ سن کر بچے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے کہ نوٹ کی کیا بے ادبی ہو سکتی ہے۔ دادا جان نے دونوں بچوں کو اپنے پاس بلایا اور انتہائی بیٹا! ہمارا وطن پاکستان ہمیں بہت کوششوں اور قربانیوں

کے بعد حاصل ہوا ہے اور یہ وطن کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے لہذا اس کی ہر چیز میں اسی کلمے کا رنگ نمایاں ہے۔ آپ لوگ مجھے بتاؤ کہ اگر ایک کاغذ پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوا ہو اور وہ کا غذ اس طرح زمین پر گرا ہو تو کیا تم اس بات کو گوارا کرو گے کہ وہ اسی طرح زمین پر گرا رہے؟“ دونوں بچوں نے نفی میں سر ہلایا۔ تو بیٹا! ٹھیک اسی طرح ان نوٹوں پر بھی تو پاکستان لکھا ہے اور پاکستان کا مطلب بھی تو لا الہ الا اللہ ہے۔ دادا جان نے کہا۔ ان نوٹوں کے اس طرح زمین پر پڑا رہنے میں پاکستان کی بے حرمتی ہے جو دراصل لا الہ الا اللہ کی بے حرمتی ہے، اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ان نوٹوں اور سکوں کا بھی احترام کریں، الہذا خود سے وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی لفظ پاکستان کی بے ادبی نہیں کرو گے۔"

دونوں بچوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی ایسا نہیں کریں گے تو دادا جان نے ان سے کہا کہ میں تمھیں ایک کہانی سناتا ہوں تو دونوں بچے کہانی کا نام سن کر بہت خوش ہو گئے اور دادا جان کی گود میں آمیٹھے ۔ دادا جان نے کہانی شروع کی: گئے۔ بچے اپنی ماؤں کو پکارتے ، روتے اور بلبلاتے پھر رہے بچھا یہ ملک ہمارے بزرگوں نے بہت جدو جہد اور ان گنت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کی قربانیاں دیں، کتنے ہی بچوں کو اپنے ماں باپ سے جدا ہونا پڑا تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آنے والوں کو بہت زیادہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا خاندان کے خاندان اجاڑ دیے تھے، بہت سے بچے جن کے والدین ان فسادات میں مارے

گئے تھے ان کو دوسرے مہاجرین اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ ان فسادات نے کتنی ہی درد ناک کہانیوں کو جنم دیا رز مین پر کتنی ہی خونی داستانیں لکھی گئیں ۔ علم اور بر بریت کے ایسے ان مٹ نقوش رقم ہوئے جنھیں سوچ کر آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ پاکستان کے نام پر یتیم اور بے سہارا ہونے والے ان لاوارث بچوں میں چودہ سالہ حمد منور نامی بچہ بھی تھا جس کا ہتا بستا پورا خاندان اجاڑ دیا گیا تھا، وہ امرتسر اسٹیشن پر ایک کونے میں ڈرا سجا کھڑا تھا کہ احمد اقبال نامی ایک شخص نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے ساتھ پاکستان لے آئے۔ پاکستان پہنچ کر جب اس بچے کا خوف ذرا کم ہوا تو احمد اقبال صاحب نے اس سے اس کے ماں باپ اور خاندان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا: میں امرتسر کے قریب ایک گاؤں میں رہتا تھا میرے اور چھہ بہن بھائی تھے۔ ایک روز ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے کھیل رہے تھے اور والدین ہمارے پاس

ہی گھر میں تھے کہ مسلح سکھ جتھوں نے بندوقوں، تلواروں اور کر پانوں سے ہمارے گاؤں پر حملہ کر دیا۔ فسادات کے دنوں میں مسلمان آبادیوں پر اس طرح کے حملے روز کا معمول بن چکے تھے ، آئے روز مسلمان اقلیتوں پر دھاوا بول دیا جاتا اور پل بھر میں ہنستی بولتی زندگیاں موت کی ویرانیوں میں گم ہو جاتیں۔ نفرت کی ایسی آگ بھڑک اٹھی تھی جس نے لاکھوں انسانی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، احترام انسانیت کا جذ بہ کھو سا گیا تھا، اخلاقی اقدار کو مٹی تلے دفن کر دیا گیا تھا، انسانیت کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا ، ہندو اور سکھ وحشی درندوں کا روپ دھار چکے تھے۔ ایسے ہی ایک وحشی جھنڈ نے ہمارے گاؤں پر

حملہ کر دیا اور پانچ سونفوس پر مشتمل اس گاؤں میں یک دم افرا تفری پھیل گئی۔ ہم جانتے تھے کہ اب ہمیں جان سے مار دیا جائے گا لہذا ہم سب اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے یہاں سے وہاں دوڑنے لگے۔ کوئی چار پائی کے نیچے چھپ گیا، قریب ہی جانوروں کے چارے کا ڈھیر پڑا تھا کسی نے اس میں پناہ لی ،سکھ اندھا دھند گولیاں برسا رہے تھے ۔ میں کسی نہ کسی طرح بھاگ کر گنے کے کھیت میں چھپ گیا اور سکھوں نے میری آنکھوں کے سامنے میرے تمام گھر والوں کو مار ڈالا ۔ سکھوں کے نیزے میرے بھائیوں کے جسم چھلنی کر چکے تھے۔ جب ان وحشیوں نے میرے بہنوں کی طرف ہاتھ بڑھائے تو میرے والد برداشت نہ کر سکے اور ہاتھ میں تلوار لہراتے ہوئے دیوانہ وار ان کی طرف لپکے۔ لیکن سکھوں نے انہیں بھی دبوچ لیا اور پھر کتنی ہی تلوار میں ان پر برس پڑیں ۔ ان کا سر، بازو اور ٹانگیں جسم سے الگ کر دی گئیں اور پھر مردہ جسم کو کھانے کے لیے اس پر کتے چھوڑ دیے گئے۔ میری دونوں بہنوں ہادیہ اور نادیہ کو سکھ اپنے ساتھ لے گئے ۔ پانچ سو نفوس پر مشتمل اس گاؤں میں محض پانچ لوگ زندہ بچ سکے جن میں ایک بدقسمت میں ہوں ۔“

دونوں دم بخود دادا جان کی زبانی یہ کہانی سن رہے تھے جب انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دادا جان بے تحاشا رو رہے تھے ، وہ بھی دادا جان کے گلے لگ کر رونے لگے ۔ دادا جان نے انہیں خاموش کروایا اور خوب پیار کیا اور پھر کہا: بیٹا! کیا تم جانتے ہو وہ منور نامی بچہ آج کہاں ہے؟ دونوں نے مارے حیرت کے دادا کے سامنے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ دادا جان نے کہا: بچو ! وہ منور نامی بچہ تمہارے دادا ہیں جو آج منور ظریف کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں بچے ایک بار پھر دادا کے گلے لگ کر رونے لگے۔

Post a Comment

0 Comments

Copyright (c) 2019 husband wife love All Right Reseved