intelligence based urdu novels

intelligence based urdu novels
intelligence based urdu novels


 چوں چوں، چوں چوں ، وہ دیکھیں سردار! مجھے لگتا ہے کہ اب نئے پودے لگیں گے اور پھر ہمیں گھونسلے بنانے کے لیے نئی جگہ مل جائے گی ۔ ڈیزی چڑیا نے خوشی سے چہچہاتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا تو چلبل طوطے اور کائیں کائیں کوے نے اُس طرف دیکھا۔ ڈیزی ، حارث کے گھر کی طرف اشارہ کر رہی تھی جہاں حارث اور عروج نے سبز کپڑے کے ڈھیروں ٹکڑے پھیلا رکھے تھے۔ جلیل نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے

کہا: یہ پودے نہیں ہیں پیاری ڈیزی! بلکہ یہ سبز رنگ کے کپڑتے ہیں جن کے ساتھ سفید رنگ جوڑ کر پاکستان کا جھنڈا بنایا جائے گا۔ کائیں کائیں کوا اپنے گھونسلے والی شاخ سے اُڑا اور ڈیزی کے قریب جا بیٹھا۔ اس نے اپنی گردن اوپر اٹھائی اور کہا: ”حارث کی امی کے ہاتھ میں سفید کپڑا ہے، آپ نے ٹھیک کہا سردار ! جھنڈا کیوں بنے گا ؟ کیا پاکستان کی سال گرہ ہے؟“

ڈیزی نے معصومیت سے پوچھا تو چلیل اور کائیں کائیں مسکرانے لگے ۔ چلبل نے اداسی جواب دیا: واقعی ! پاکستان کی سال گرہ ہے اور اس بار نہ جانے کیسی سال گرہ منائی جائے گی ؟ ڈیزی نے چلبل کو اداس دیکھ کر جلدی سے سوال کیا: کیا مطلب سردار؟ پچھلے سال آپ کو کیک نہیں ملا تھا ؟ ڈیزی کی بات سُن کر چلبل اور کائیں کائیں نے قہقہہ لگایا جبکہ اس نے جلدی سے اپنی چونچ کو اپنے پروں میں چھپایا۔ ”جب پاکستان بنا تو میں نے بھی وہاں سے ہجرت کی تھی، کیا تم جانتی ہو ڈیزی؟ اس واقعے کو پچھتر سال گزر گئے ہیں لیکن مسلمانوں کی طرح ہم پرندوں کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ کائیں کائیں نے اداس ہو کر بات شروع کی تو ڈیزی پریشان ہوگئی۔ اس نے تجسس سے پوچھا:

ایسا کیا ہوا تھا آخر؟ کائیں کائیں کی ہمت نہیں ہوئی ، اس لیے چلبل نے بات آگے بڑھاتے ہوئے جواب دیا: بہت خون ریزی ہوئی تھی ، انسان دوسرے انسانوں کو ایسے کاٹ رہے تھے جیسے کوئی خاتون سبزی کاٹتی ہے۔ ماؤں نے پاکستان کا رخ کیا تو راستے میں اپنے جوان بیٹے کھو دیے، کیوں کہ وہ اپنی ماں بہنوں کی عزتیں بچانے کے لیے آگے بڑھے تھے۔ یہ وطن پلیٹ میں سجا کر نہیں ملا بلکہ کچھ دنوں اور کچھ مہینوں کے بچے بھی شہید ہوئے ۔“ یہ کہتے ہی چلیل کی آواز بھرا گئی اور اس کی آنکھوں سے ڈھیر سارے آنسو نکل آئے۔ کائیں کائیں کو پتا چل گیا کہ چلبل کیوں رویا ہے؟ وہ دونوں بزرگ پرندے تھے اور ان  دونوں نے اپنی آنکھوں سے سارے واقعات دیکھے تھے۔ سفر کے دوران چلبل کے بچے بھی اڑتے اڑتے تھک چکے تھے اور پھر ایک تالاب کے پاس رک کر انھوں نے پانی پیا تو زہریلے پانی سے ان کی جان چلی گئی تھی۔ وہیں اس کی دوستی کا ئیں کا ئیں سے ہوئی اور ان دونوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ کائیں کائیں نے چلبل کو تسلی دی اور بولا : ”جب ہندو مسلمانوں کو دیکھتے تو انھیں جان سے مار ڈالتے تھے۔ ایک مسلمان خاندان چھپ چھپا کر کسی شہر سے گزر رہا تھا کہ ہندوؤں کے آنے کا خدشہ ہوا۔ وہ سب ایک دیوار کے پیچھے چھپ گئے اتنے میں گود میں لیے ایک بچے نے رونا شروع کیا تو ماں نے جلدی سے اس کے منھ پر ہاتھ رکھا اور کچھ دیر بعد ہاتھ ہٹایا تو بچہ مر چکا تھا۔ اس ماں کی بے بسی اور تکلیف کیا ہوگی؟ جس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے جگر گوشے کو چپ کراتے ہوئے مار دیا ۔“ ڈیزی نے یہ حالات سنے تو وہ بھی ہچکیوں سے رونے لگی اور بولی:

" جس طرح سب بچے جشن مناتے ہیں، مجھے لگا پاکستان بہت آسانی سے بنا ہو گا ۔ ان باتوں کو کبھی کوئی بچہ یاد ہی نہیں کرتا ۔ ڈیزی یہ کہتے ہوئے حارث کے گھر کی طرف دیکھنے لگی جہاں بڑے جوش سے سبز و سفید جھنڈا بنایا جا رہا تھا۔ کاش آج کی نسل اپنے اجداد کی قربانیوں کو یا در رکھے اور آزادی کا اصل مطلب سمجھ سکے ۔" جلیل نے حسرت سے کہا تو ڈیزی اور کائیں کائیں نے دل و جان سے آمین کہا۔ اگلے لمحے وہ تینوں پاکستان کی سلامتی اور مسلمانوں کی ہدایت کی دعا کرنے لگے۔

Post a Comment

0 Comments

Copyright (c) 2019 husband wife love All Right Reseved