horror novels in urdu horror novels in urdu
میں دادا جی کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا ۔ کل صبح پاکستان کا بھتر ویں سال گرہ تھی۔ پہلے تو داداجی مجھ سے ۔ میرے کالج کے بارے میں پوچھتے رہے۔ پڑھائی پر بات ہوتی رہی پھر اچانک میرے ایک سوال پر دادا جی چونک گئے ۔ ان کی آنکھوں میں اداسی چھا گئی ۔ میں بھی پریشان ہو گیا۔ میں نے تو بہت ہی آسان سا سوال پوچھا تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا جواب اتنا مشکل ہو سکتا ہے ۔
دادا جی! جب پاکستان بنا تو آپ انڈیا سے پاکستان آئے تھے نا؟ آج انڈیا سے پاکستان کے سفر کا کچھ احوال تو بتائیں۔ میں نے دادا جی کا ہاتھ تھام کر پوچھا۔ وہ کچھ دیر اپنی اداس نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے جیسے کچھ یاد کر رہے ہوں۔ پھر ایک لمبی سانس لینے کے بعد بتانا شروع کیا۔ کچھ دیر تک وہ کیا بولتے رہے مجھے کچھ مجھ نہیں آسکا۔ میں واقعات کی روانی میں بہتا چلا گیا۔ میری آنکھیں صرف دادا جی
کا چہرہ اور کان صرف ان کی آواز سن رہے تھے۔ لیکن ا وہ کیا کا کہہ رہے تھے یہ میرے ہوش و حواس سے عاری تھا۔ میں نہیں 1 جانتا تھا کہ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے وقت یہ - مشکلات بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔ پھر اچانک مجھے ہوش آیا اور میں نے اپنے سر کو جھٹکا اس وقت دادا جی بتارہے تھے: ایک مگر وہ صورت سکھ نے کر پان کو شیر خوار بچے کے ننھے سے پیٹ میں گھونپ دیا۔ خون کا فوارہ نکلا ۔ ماں نے بچے کو بچانا چاہا لیکن دوسرے سکھ کی تلوار نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ قافلے کے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ لوگوں نے جان بچانے کے لیے سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے قافلہ دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ ایک حصے میں ہم دونوں بھائی رہ گئے تھے۔ ہمارا سارا خاندان قافلے کے دوسرے حصے کے ساتھ نہ جانے کہاں راستہ بھٹک چکا تھا۔ رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی ۔ غیر ہموار سا میدانی راستہ اور جگہ جگہ جھاڑیوں کی وجہ سے چلنا بہت دشوار تھا ۔ ایک لمحے کے لیے وہ رکے اور پھر گویا ہوئے:
صبح ہوتے ہی ہمارا بچا کھچا قافلہ ایک مسلمان آبادی والے گاؤں کے قریب پہنچا۔ گاؤں کی فضا دھویں اور لاشوں کے جلنے کی ناگواری بو سے آلودہ تھی۔ یقیناً پاکستان کی آزادی کی قیمت ادا کرنے والے ان گمنام جانثاروں کے گوشت کے جلنے کی ہو تھی جو محض مسلمان ہونے اور پاکستان سے محبت کے جرم میں جل رہے تھے ۔ بہت مشکل سے گرتے پڑتے ہم آگے بڑھ رہے تھے ۔ منزل تو ہماری ریلوے اسٹیشن تھی جس کی سمت کا نہ کوئی تعین تھا اور نہ ہی اندازہ ۔ اچانک ایک سکھوں کی بس نزدیک آکر رکی ۔ سکھوں نے گاجر مولی کی طرح نہتے مسلمانوں کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں بھائی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون میں نہا چکے تھے۔ اچانک مجھ پر کوئی گرا اور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔" 'جب مجھے ہوش آیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں زندہ ہوں اور لاشوں کی نیچے دبا ہوا ہوں۔ بڑی مشکل سے اپنا سر اور چہرہ نکالا۔ منھ، ناک اور آنکھوں میں شدید اذیت ناک جلن ہو رہی تھی۔ چھوٹا بھائی بھی ایک لاش کے نیچے نیم بے ہوشی کی حالت میں دبا ہوا تھا۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ لیکن کچھ لوگ زخمی بھی تھے اور چلنے پھرنے سے معذور بھی ۔ ہمیں دیکھ کر زخمیوں نے پانی مانگا۔ ہم نے قریبی کھیت میں کھڑے پانی میں قمیض ڈبو ڈبو کر ان زخمیوں کے منہ میں نچوڑ لیکن پانی پیتے ہی زخمی آخری ہچکی لے کر شہید ہوگئے۔ ظالموں نے شاید کھڑے پانی میں بھی زہر ڈالا ہوا تھا۔ جانے کیسے گرتے پڑتے ہم پختہ روڈ تک پہنچے۔ وہ شاید قیامت کا دن تھا، ہر انسان پریشانی کا شکار تھا۔ لیکن ایک عشق تو سانجھا تھا نا؟ مملکت خداداد کا عشق ۔ اسلام کے قلعے کے حصول کے لیے دعا ئیں اور اس پاکیزہ مٹی کی کشش تو سانجھی تھی نا ؟“ میں نے محسوس کیا کہ دادا جی کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔ وہ بار بار رومال سے اپنی آنکھیں صاف کر رہے تھے ۔ دادا جی ! پھر آگے کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ اس کے بعد راستے میں ایک بیل گاڑی پر سوار ایک بزرگ خاتون نے ہم دونوں بھائیوں کو سمٹ کر جگہ دی۔ امرتسر ریلوے اسٹیشن پر ٹرین لاہور آنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ٹرین کی کسی ہوگی میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ چھتوں پر بھی سوار تھے اور بڑی تعداد میں ٹرین کے ساتھ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ راستے کے مناظر سے صاف پتا چلتا تھا کہ
امرتسر میں کافی قتل وغارت ہو چکی تھی ۔ ٹرین کے سب مسافر حسرت و آس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ سب لوگ بس ایک دفعہ پاکستان کی ہوا میں سانس لینا چاہتے تھے ۔ امرتسر سے اٹاری کا آدھے گھنٹہ کا سفر ٹرین نے رک رک کر کئی گھنٹوں میں طے کیا۔ راستے میں کئی جگہ ٹرین کے مسافروں پر حملے کی بھی کوششیں ہوئیں۔ اٹاری اسٹیشن سے ذرا آگے ایک ظالم ساکھ کی تلوار سے میرا چھوٹا بھائی بھی جدا ہو گیا اور میں بد نصیب کچھ بھی نہ کر سکا۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی آنکھیں ایک بار پھر رومال سے صاف کیں۔ کچھ دیر ایسے ہی خاموشی سے گزر گئے ۔ میں نے دادا جی کو پانی دیا۔ پانی پی کر وہ بولے: بالآخر ٹرین لاہور میں داخل ہو ہی گئی جو ہجرت کرنے والوں کا پہلا پڑاؤ تھا۔ قافلے کے لوگ لاہور اسٹیشن پر اترتے ہی سجدے میں چلے گئے ۔ لوگ لاہور کی مٹی کو ایسے چوم رہے تھے جیسے حاجی غلاف کعبہ کو چومتے ہیں۔“
یہ واقعات سناتے ہوئے دادا جی کی آنکھوں میں آنسوؤں کا دریا جاری تھا۔ مجھے اب اندازہ ہوا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت جو ظلم و ستم مسلمانوں پر ہوا آج بھی وہ لوگ محسوس کر کے آہیں کیوں بھرتے ہیں۔ جن کے سامنے ماؤں اور بہنوں کی عصمتوں کا جنازہ نکلا، ماؤں کے سامنے بچوں کو قتل کیا گیا، بیویوں کے سامنے سہاگ ذبح کیے گئے اور بیٹوں کے سامنے باپ کا سر تن سے جدا کیا گیا۔ وہ رویں نہ تو پھر کیا کریں؟ بلا شبہ یہ سب قربانیاں محض ایک ملک کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ قربانیاں آنے والی نسلوں کو اسلام کا قلعہ فراہم کرنے کے لیے تھیں۔ یہ ملک ہمارے آبا ؤ اجداد کی انتھک محنت اور بے مثال قربانیوں کا ثمر ہے جو ہمیں ملک پاکستان کی صورت میں عطا
ہوا ہے اور ہمیں اپنے ملک پاکستان کی قدر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس ملک کی آبیاری کی ہے۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کے لیے دن رات محنت کریں، تحریک پاکستان کے لیے جد و جہد کرنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی روحوں کو ابدی راحت و تسکین پہنچانے کے لیے اپنی آنے والی نوجوان نسلوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے ملک پاکستان کو دین اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے دن رات انتھک محنت کریں۔ اس جشن آزادی پر میری طرح آپ بھی عہد کریں کہ اس نعمت خداوندی کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا بھر پور کردارادا کریں گے کیوں کہ یہ واحد طریقہ ہے جس سے ان شہداء کی ارواح خوش ہوں گی کہ جن کا خون اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔
0 Comments