best short stories in urdu |
لاہور ہے۔ آپ ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجیے۔" پھر اگلے کچھ لمحوں بعد اس رخصت ہوتی رات نے دیکھا کہ وہ مسلمان جو ہندوستان میں اقلیت میں تھے انھوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور اعلان ہوا : یہ ریڈیو پاکستان ہے آپ کو پاکستان مبارک ہو۔" کچھ گھنٹوں بعد 14 اگست کی وہ سہانی صبح طلوع ہوئی جس کے لیے لاشوں کے انبار لگے، بہنوں بیٹیوں کی عزت
بچانے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا گیا اور آنکھوں کے سامنے اپنوں کو کٹتے دیکھا گیا۔ وہ دن، وہ منظر ، وہ خوف ، دل میں خدا اور رسول کی محبت اور زباں پر روزہ تھا لیکن ولولہ ایسا کہ آگے بڑھتے گئے ، کٹتے گئے مگر اپنے ملک آنے کی خواہش کو سینے میں مرنے نہ دیا۔ وہ دن جو برسوں پہلے گزر کر بھی برسوں بعد ٹھہر گیا تھا ہر دل میں، ہر آنکھ میں ، ہر زباں پر اور ہر سال اس دن کو یوں شان اور اہتمام سے منایا جاتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی کہ جس وطن کا لگتا تھاوہ برباد ہو جائے گا آج وہ اپنے پیروں پر کھڑا تھا، وہ چھوٹا سا خطہ اب ایک خودمختار وطن تھا۔ آج بھی وہی برسوں پرانا دن تھا۔ 13 اگست کا دن جب سورج اسی چمک دمک کے ساتھ طلوع ہوا تھا اور پاکستانیوں کے دل جوش سے بھر دیے تھے۔ پورا پاکستان کچھ گھنٹوں کے دوری پر کھڑے آزادی کے دن کو منانے کے لیے پر جوش تھا ایسے میں بارڈر کے اس پار ایک چھوٹے سے قصبے میں بھی خوشیاں دوڑ رہی تھیں، سبز جھنڈیوں سے قصبے کو سجاتے ہنتے مسکراتے چہروں پر زندگی رقص کر رہی تھی۔
بچے، بوڑھے جو ان سب ہی آزادی کے دن کو خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے ۔ قصبے کو سبز اور سفید رنگ سے یوں سجایا گیا جیسے زمین کا ایک ٹکڑا بذات خود پاکستان کا جھنڈا ہو۔ کسی کے ہاتھ میں سبز اور سفید رنگ تھا تو کسی کے ہاتھ میں کسی اونچی جگہ پر لگانے کے واسطے جھنڈا تھا تو کوئی بزرگ اپنی لاٹھی سے رسیوں کو سہارا دیتا جھنڈے کو گرانے سے روک رہا تھا۔ عورتیں اپنا سلائی کڑھائی کا منصب سنبھالے جھنڈے بنانے میں مصروف تھیں۔ انہوں نے پانچ سو سے زائد پاکستانی پرچم تیار کر لیے تھے اور اب چودہ اگست کے دن کے
آغاز پر قصبے کے وسط میں لہرانے کے لیے لمبا چوڑا جھنڈا بنا رہی تھیں۔ یہ صرف پر چم نہیں تھے یہ اس چھوٹے سے قصبے میں بہتے محبت سے گندھے مخلص لوگوں کا اپنے ملک سے محبت کا والہانہ اظہار تھا۔ بارڈر کے بالکل ساتھ جڑے اس قصبے میں بسنے والوں کے دل بھی سبز ہلالی پرچم کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ جانتے تھے ابھی کسی طرف سے فائرنگ شروع ہوئی تو نشانہ وہ بھی بنیں گے مگر اس کے باوجود وہ بے خوف ہو کر جیتے تھے کہ اگر مریں گے تو دفتا نے کو اپنی مٹی تو میسر ہو گی ۔ پورے پاکستان کی طرح اس قصبے میں مقیم پاکستانیوں کی دعائیں اور وفا میں سفید اور بے داغ تھیں ۔ اسی سفید رنگ کے ساتھ جب سبز رنگ ماما تھا تو ان کی محبت بے مثال ہو جاتی تھی۔ آزادی کو سالوں گزر گئے تھے اور اب ملک واپس غلامی کی طرف جارہا تھا مگر ان کے جشن سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دن ان کے جسم کے روئیں روئیں کو تازگی عطا کرتا ہے اور انھیں ہر خوف کی قید سے آزاد کرتا یقین دلاتا ہے۔ " کچھ بھی ہو جائے ہم آزاد ہیں۔"
سورج جیسے مشرق سے طلوع ہوا ویسے ہی مغرب میں غروب ہو گیا۔ قصبہ کل کے جشن کے لیے مکمل تیار تھا۔ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے آزادی کے دن کے منتظر سکون کی نیند سو گئے ۔ رات بیتی ، 14 اگست کی حسین صبح طلوع ہوئی۔ زندگی پہر سے سانس لینے لگی تھی ۔ گھاس شبنم کے قطروں کو اپنے اندر. جذب کرنے لگی تھی ۔ تاریکی کو چیر کر سورج کی پہلی سفید کرن ان کے کام میں مزید تیزی لا رہی تھی۔ صبح ہوئی مگر وہ صبح وہ تو نہ تھی جس کے وہ منتظر تھے۔ ان کا کیا کرایہ کوئی مٹی میں ملا کر جا
چکا تھا۔ ہر شخص بھاگا، جس کی جہاں نظر پڑی اس نے مٹی میں ائے جھنڈے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ راکھ میں خاک ہوئی کئی نشانیوں کو نکال کر کسی متاع جاں کی طرح محفوظ کیا۔ چند پل افسوس کے گزرے اور پھر سب متحرک ہو گئے۔ بالٹیوں میں بھر بھر کے سرف ڈال کر جھنڈوں کو دھویا گیا، سیاہ کی گئی دیواروں پر پھر سے سبز اور سفید رنگ کو سجایا گیا۔ صبح کی ٹھنڈی ساعتیں بیتیں، دوپہر کا آغاز ہوا۔ سورج مشرق سے نکلتا اب ان کے سروں پر کھڑا تھا۔ سب ایک بار پھر سنور چکا تھا۔ وہ جو رات کی تاریکی میں سب تباہ کر گیا وہ شاید جانتا نہیں تھا یا جان کر بھول رہا تھا کہ پاکستانی تو وہ قوم ہیں جنھوں نے تنکے تنکے کو اکٹھا کر کے آشیانہ بنایا تھا اور پھر بڑی محبت سے اس کا نام ”پاکستان“ رکھا تھا، تو پھر وہ اپنی تھکن اور درد کو بھول کر اس کی تعمیر کی کوشش کیوں کر نہ کریں گے۔ سب ایک بار پھر بج چکا تھا، ماتھے پر جھنڈے باندھے، آنکھوں میں عقیدت لیئے ہر شخص سجدہ شکر بجالایا تھا۔
وہ چھوٹے سے قصبے کے باسی تھے مگر وہ پاکستانی تھے۔ ایک چھوٹے سے خطے میں ایک آزاد وطن کو تعمیر کر سکتے تھے تو آزادی کی پر نور ساعتوں کے لیے اپنی تھکن کیوں کر نہیں بھول سکتے تھے۔ بارڈر کے اس پار تباہی کے منصوبے تھے تو بارڈر کے اس پار پھر سے اور ہر بار پھر سے تعمیر کرنے کا جذبہ تھا وہ جذ بہ جو زمینی دلوں میں آسمانی تھا۔ اتنے میں مسجد کے گنبد سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی جسے سنتے ہی بچے، بڑے، بوڑھے، نوجوان سب مستعدی سے نماز ظہر ادا کرنے مسجد کی طرف بڑھ گئے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ چودہ اگست بھی تو عید ہی ہے جیسے عید الفطر ہو گئی میٹھی عید اور عید الضحی ہوگئی بکرا عید اور چودہ اگست ہوگئی آزادی کی عید۔ بچے، بوڑھے، جوان ، سب
پاکستان کی بقاء اور احکام کے لیے اجتماعی دعا کر کے سیدھا وہاں پہنچنے جہاں انھوں نے آج پھر تقریب کے لیے جگہ مالی تھی اگر چہ اب وہ جگہ کل جیسی نہیں تھی مگر اپنی تھی اور نہیں احساس کافی تھا۔ آسمان پر بادل چھانے لگے تھے اور سورج ان سرگی بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا اور اب ملکی ہلکی ٹھنڈی ہوا گھاس میں سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی۔ دوپہر کی ڈھلتی ساعتیں اور آسمان پر بنتے کئی رنگ اس دن کو تمام دنوں میں مضبوط مان رہے تھے۔ اس ٹھنڈی گرم دو پہر میں اب سب انتظامات کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے۔ سفید وسبز رنگ کے کپڑے سے گراؤنڈ کے چاروں اطراف قناتیں لگا دی گئی تھیں ۔ مائیک ، اسپیکر اور ملی ترانے کی دھن کو بھی چیک کیا جا چکا تھا اور اب اس قصبے میں صرف ایک ہی آواز
تھی:
یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں
پاسباں اس کے یہ چمن تمہارا ہے،
تم ہو نغمہ خواں اس کے
0 Comments