best novels in urdu |
best novels in urdu
آسمان سہرے تاروں کی چادر اوڑھے سو رہا تھا اور میں جاگ رہا تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے اور نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یہ میری عادت تھی اور بہت بری عادت تھی۔ بھلا رات کے دو بجے سونے والا صبح جلدی کس طرح اٹھ سکتا ہے؟ اور جو صبح دس بجے تک سوتا رہے وہ تو گیا کام ہے۔ اچھے اور عظیم لوگوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ صبح کے ابتدائی چند گھنٹے کیسی بھی کام کے لیے انتہائی موزوں ہوتے ہیں۔ جس نے یہ قیمتی وقت ضائع کر دیا اس کا سارا دن فضول گزرتا ہے اور سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی دور بین سے دور دور تک دیکھنے کا شوق مجھے سونے نہیں دے رہا تھا۔ مجھے آج کل موسم گرما کی چھٹیاں تھیں اور میں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں مصروف
تھا۔ اب مجھے اپنا شوق پورا کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ ابھی ابھی میں نے ایک جاسوسی ناول ختم کیا تھا اور اب چھت پر لیٹا تاروں کی جاسوسی کرنے میں مصروف تھا۔ میں کسی سیارے کی تلاش میں تھا۔ میرے ہاتھوں میں انتہائی طاقت ور دور بین تھی جو میرے چا امریکا سے میرے لیے لائے تھے۔ دور بین آنکھوں سے لگائے ہوئے مجھے اب آدھا گھنٹہ ہو چلا تھا۔ مایوس ہو کر میں دور بین آنکھوں سے ہٹانے ہی لگا تھا کہ ایک جھما کا سا ہوا۔ میں نے بوکھلا کر دور بین آنکھوں ۔ ہٹا دی۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ میں نے دوبارہ دور بین آنکھوں سے لگائی تو دور پہاڑوں کے سینے میں مجھے جگ سے مگاتے ہوئے کچھ حروف نظر آئے۔ یہ سب میری دور بین کا کمال تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا
تھا کہ کسی عام آدمی کے پاس اتنی طاقت در دور بین ہوگی ۔ میں سیالکوٹ کا رہنے والا نہیوں اور سرحد ہمارے بالکل قریب ہے۔ سرحد کے اس پار پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پیغام وہ یقینا اپنے ان ایجنٹوں کو دے رہا ہوں گا جو یہاں موجود تھے۔ P-CON:Si-T-N697-25-7-9PM یہ کیا ہے ؟ میں بڑ بڑایا۔ پھر میں نے بہت غور کیا لیکن کچھ سمجھ نہ پایا۔ ایک دفعہ پھر میں نے دوربین کے ذریعے وہ " حروف دیکھے۔ اب وہ آہستہ آہستہ مٹ رہے تھے۔ میں نے ۔ جلدی سے قلم جیب سے نکالا اور ناول کے ایک صفحے پر انہیں لکھ لیا۔ اس کے بعد میں ساری رات ان حروف کا معمہ حل کرنے کی کوشش کرتار ہا لیکن ناکام رہا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میں چونک سا گیا۔ اوہ لیں ! میں نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور وضو کر کے نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ میں نے اپنے اسلامیات کے استاد سے یہ سنا تھا کہ جب انسان ہر طرف سے نا کام ہو جائے اور مسئلے کا کوئی حل نہ سوجھ رہا ہو تو پھر اس ذات سے ضرور رجوع کرنا چاہیے جو اس دنیا کے سارے اسرار در موز سے واقف ہے۔
نماز ادا کرنے کے بعد میں دوبارہ قلم اور کا غذ تھام کر بیٹھا تو میرا ذہن پر سکون تھا اواب میں نئے سرے سے غور و فکر کرنے لگا۔ سب سے پہلے میری نظر 7-25 پر ٹک گئی۔ سات کیا ہے؟ اور چھپیں کیا ہے؟ اچانک میری نظر سامنے دیوار پر لگے ہوئے کیلنڈر پر پڑی۔ آج 24 تاریخ تھی۔ میرا دل زور سے دھڑکا۔ میں نے جلدی جلدی انگلیوں پر مہینہ گنا۔ یہ ساتواں مہینہ تھا اور کل 25 تاریخ تھی۔ یقینا یہ کل کے دن کے لیے ہی کوئی پیغام تھا۔ میں بہت خوش ہوا۔ اب مجھے یقین تھا
کہ بقیہ پیغام بھی میں ضرور سمجھ جاؤں گا۔ 9PM یقیناً وقت ہے۔ میرے ذہن نے کہا۔ اب صورت حال کچھ یوں تھی کہ دشمن نے اپنے ایجنٹوں کو 25 جولائی کو رات نو بجے رابطہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ رابطہ کا لفظ ذہن میں آنا تھا کہ میرے ذہن میں اس کی انگریزی آ گئی ، cn-Contact اسی لفظ کا مخفف تھا۔ اب باقی پیغام بھی آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آ رہا تھا۔ P سے مراد Please (برائے مہربانی ) Si سے سیالکوٹ، ST-T سے سیٹیلائٹ ٹاؤن ،N697 یقینار ہائش گاہ کا نمبر تھا۔ اب پورا پیغام اس طرح بنتا تھا ۔ Please contact Sialkot- Satelite town-No 697-25 July, 9PM (برائے مہربانی سیالکوٹ کوٹھی نمبر این 697 سیٹلائٹ ٹاؤن میں 25 جولائی رات نو بجے رابطہ کریں) میں اس طرف سے مطمئن ہو کر کچھ دیر کے لیے سو گیا۔ تقریبا دس بجے میری آنکھ کھلی ، ناشتہ کرنے کے بعد میں نے یائی سائیکل اٹھائی اور سیٹلائٹ ٹاؤن کی طرف چل پڑا۔ کوٹھی بر این 697 ڈھونڈنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
یہ تقریباً ایک کنال رقبے پر مشتمل تھی۔ لانے لانے درخت اس کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ میں تین چار مرتبہ اس کے گیٹ کے سامنے سے گزرا۔ اندر دو مسلح محافظ گیٹ کے ساتھ بنے ہوئے کیبن میں موجود تھے ۔ پتھروں سے بنی ایک روش اندر تک جارہی تھی اور اس کے اردگرد انتہائی خوبصورت مخملیں گھاس بچھی ہوئی تھی۔ میں نے گیٹ پر کچھ دیر رک کر اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن محافظوں کی تیز نگاہوں سے گھبرا کر پلٹ آیا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے اس کوٹھی اور کوٹھی کے مکینوں کے بارے میں معلومات مل جائیں۔ لیکن ابھی تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اصولی طور پر تو مجھے پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے تھا لیکن پولیس سب سے پہلے اس بات کا ثبوت مانگے گی اور پھر یہ کوئی چھوٹا موٹا معاملہ تو تھا نہیں، پتا نہیں انہیں میری بات کا یقین بھی آتا کہ نہیں ۔ الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ۔ چناں چہ میں نے رات کو مقررہ وقت پر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ میں کیا کرنا چاہتا تھا یہ خود مجھ پر بھی واضح نہیں تھا۔ رات کو تقریباً سوا آٹھ بجے میں وہاں موجود تھا۔ اس بار میں پیدل ہی آیا تھا۔ تقریباً نو بجے چار کاریں اس کو ٹھی میں داخل ہوئیں اور میں بھی دھیرے دھیرے چلتا ہوا گیٹ کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن اندر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ باہر کی سب روشنیاں بجھی ہوئی تھیں۔ البتہ اندر کسی کمرے سے ہلکی ہلکی روشنی جھلک رہی تھی۔ میری خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا ثبوت مل جائے جس کی مدد سے میں ان لوگوں کو گرفتار کروا سکوں لیکن یوں باہر کھڑے کھڑے تو مجھے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ میں نے بھی اندر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب میں کوئی ایسا چور راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں تھا جہاں سے میں چپکے سے اندر داخل ہو جاؤں اور کسی کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔ جاسوسی ناولوں میں عام طور پر یہ کام کسی بھی عمارت کے عقبی حصے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ میں بھی اس کوٹھی کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا ہو ا عقبی حصے کی طرف جانے لگا لیکن پھر اچانک ہی مجھے اپنے قدم روکنے پڑے۔ پیچھے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ کوٹھی کی دیوار بھی تو کوئی اتنی بلند نہیں تھی کہ
میرے جیسافٹ بال کا کھلاڑی اس کو نہ پھلانگ سکے۔ اندر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ سکے گا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ ہر طرف ویرانی تھی۔ میں نے دیوار پر دونوں ہاتھ جما کر اپنا جسم اوپر اٹھایا۔ چند یوں بعد ہی میں دیوار پر سے اندر کود چکا تھا اور زمین پر لیٹا کسی کے قدموں کی آہٹ سننے میں مصروف تھا۔ لیکن یہ عجیب لوگ تھے۔ یوں بے پروائی سے اندر میٹنگ میں مصروف تھے کہ میرا جیسا اناڑی، کم سن لڑکا ان کے ارادوں کی خبر لینے یہاں موجود تھا۔ بہر حال کسی کی عقل پر کسی بھی وقت پردہ پڑ سکتا ہے۔ میں یونہی جھکا جھکا اندر کی طرف بڑھا لیکن چند قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ ایک خوف ناک غراہٹ کے ساتھ ایک کتا میری طرف لپکا۔ اس نے سیدھی میرے اوپر چھلانگ لگائی لیکن اس کے پنجے ابھی میرے چہرے سے چند انچ دور ہی ہوں گے کہ فضا میں ایک شعلہ سا لپکا اور وہ کتا بغیر کوئی آواز نکالے ڈھیر ہو گیا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اور میں اپنی جگہ پر بالکل ساکت اور خاموش کھڑا تھا۔ جسم پر ہلکا ہلکا لرزہ طاری تھا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کتے کو اچانک کیا ہوا ۔ یہ شعلہ سا کیا تھا۔ کس نے میری مدد کی ہے؟ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی جال میں پھننے جا رہا ہوں۔ دشمن میری مدد کس طرح کر سکتا تھا۔ البتہ مجھے پھانسنے کے لیے ہی یہ چیز مکن ہو سکتی تھی۔
میں اسی طرح جھکا جھکا آگے بڑھ گیا۔ اب پہلا قدم تو اٹھا ہی لیا تھا۔ میں اب کامیابی کے آخری قدم تک اسے واپس نہیں لانا چاہتا تھا۔ برآمدے کو عبور کر کے میں اندر کمروں کی طرف بڑھا۔ ایک کمرے سے روشنی کی لکیر باہر آرہی تھی۔ میں اس کے قریب تر ہوتا گیا۔ اندر آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی
آواز عالی سے رہی تھی۔ میں نے دروازے کے ساتھ کان لگا رہے۔ دروازہ مکمل طور پر بند نہیں تھا۔ اس لیے فقرے پوری طرح میری سمجھ میں آرہے تھے۔ اجیت ا تم اپنی پوری ٹیم کے ساتھ لاہور کا علاقہ سنبھالو آپ بے فکر رہیں سر، اس مرتبہ آپ کو خوش کر دیں گے۔ ہم اس قوم کا ڈائمنڈ جوبلی منانے کا ہر پروگرام خون میں ڈبو دیں گے۔" یہ آواز یقیناً اجیت کی ہوگی۔ میرے سر پر خون گرم ہوتا جا رہا تھا۔ ان کا منصوبہ ہی اتنا خوف ناک تھا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ ہوتا تو میں ان کو یہیں ان کے منصوبے سمیت ڈھیر کر دیتا۔ میں پھر سے ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ابھی میں نے اپنے کان دروازے کے ساتھ لگائے ہی تھے کہ مجھے اپنے پیچھے ایک آہٹ سی محسوس ہوئی۔ میں نے تیزی سے پلٹنا چاہا تو کسی نے بجلی کی سی تیزی سے مجھے دھکا دیا اور میں دروازے سے ٹکراتا ہوا ایک دھما کے سے اندر جا گرا۔ اندر بیٹھے ہوئے تمام افراد بوکھلا کر کھڑے ہو گئے ۔ دروازے سے ٹکرا کر میں تو اپنے حواس ہی کھو بیٹھا تھا۔
میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا تو مجھے دھکیلنے والا آدمی بھی اندر داخل ہو گیا۔ وہ مین گیٹ کے محافظوں میں سے ایک تھا۔ سب آدمی حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ دروازے سے کان لگائے آپ کی باتیں سن رہا تھا ۔" وہ محافظ بولا۔ یہ لڑکا یہ چھوٹا سا ؟ ایک آدمی جو اپنے حلیے اور لباس سے ان کا باس معلوم ہوتا تھا۔ اس کے قریب پہنچ گیا۔
پھراسے بازو سے باز کردہ پھنکارا۔ لر کے اکون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟" میں نہیں میں تو ۔ " میں ہکلا کر رہ گیا۔ ایسی خوف ناک مصیبت میں اس طرح چھیننے کا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کس نے بھیجا ہے تمھیں ؟ وہ شخص گرج کر بولا۔ اچانک مجھے ایک آئیڈیا سوجھ گیا۔ ابا نے بھیجا ہے اور کون بھیجتا بھلا ؟" ابانے؟ میرا غیر متوقع جواب سن کر وہ گڑ بڑا گیا۔ " کیا مطلب ہے تمھارا ؟ ابا نے بھیجا ہے، کس کے ابا نے بھیجا ہے؟" ”میرے ابا نے بھیجا ہے اور کون بھیجتا۔ میں نے پر اعتماد لیجے میں کہا۔ کیوں بھیجا ہے۔‘ باس نما اس شخص نے کہا۔ آپ نے دو ماہ کا کرایہ نہیں دیا۔ سیٹھ صاحب نے میرے ابا سے کہا کہ جاؤ ان سے کرایہ وصول کر کے لاؤ۔ ابا دن میں کئی بار آئے مگر آپ نہیں ملے ۔ ابا نے اب مجھے بھیجا تھا کہ جاؤ رات کو تو وہ ضرور ہوں گے۔ اگر وہ ہوں گے تو مجھے بتاتا میں بھی آجاؤں گا ۔"
کیا بکواس ہے یہ! کیا کرایہ کہاں کا کرایہ ہم نے تو سال کا ایڈوانس کرایہ جمع کروا دیا ہے ۔“ وہ آدمی جھلا کر بولا تو میری ہنسی نکل گئی۔ اس نے مجھے گھورا تو میں نے ہم جانے کی اداکاری کی۔ کیا یہ کوٹھی نمبر 597 نہیں ہے؟ میں نے معصومیت سے پوچھا۔ 597؟“ وہ آدمی حیران ہو کر بولا۔ تمھارا مطلب کہ تم نے کوٹھی نمبر 597 میں جاتا تھا۔" تھا کیا مطلب؟ یہی ہے 597۔ ورنہ آپ کے محافظ مجھے اندر کہاں آنے دیتے۔" یہ کوٹھی نمبر 697 ہے۔" وہ آدمی غرایا۔ اور تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ تم نے محافظوں کو کوٹھی نمبر 697 کا بتایا اور انھوں نے تمہیں اندر آنے دیا۔“ یہ جھوٹ ہے صاحب! سراسر جھوٹ ۔ ہم نے تو اس لڑکے کو پہلی بار دیکھا ہے۔ محافظ نے بلبلا کر کہا۔ اسے اپنی نوکری خطرے میں نظر آنے لگی تھی۔ میں نے تم دونوں کو ہدایت کی تھی کہ اب اندر کوئی نہ آئے ۔ " باس نے غرا کر کہا۔ صاحب! آپ بے شک ہم کو گولی مار دیں ۔ یہ لڑ کا جھوٹا ہے۔ یہ گیٹ کے راستے اندر نہیں آیا۔ یقیناً دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہے۔“ " کیا تم پاگل ہو گئے ہو۔ باس نے غصے کے ساتھ کہا۔ " کیا اتنا نہیں جانتے کہ دیوار سے آنے والوں کا استقبال کرنے کے لیے ہم نے کتنا خطر ناک کتا پال رکھا ہے۔" سرا یقین کریں میں سچ بول رہا ہوں ۔ ٹھہریں۔ میں کتے کو دیکھ کر آتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے اس کے ساتھ ضرور کچھ کیا ہوگا۔"
محافظ تقریباً دوڑتا ہوا باہر چلا گیا اور میرا دل ڈوبنے لگا۔ کتے کے حشر کا پتا چلتے ہی اب میرا حشر ہو جاتا تھا۔ میں دل ہی دل میں جل تو جلا تو آئی بلا کو ٹال تو ۔ پڑھنے لگا۔ تقریباً تین چار منٹ کے بعد وہ محافظ بو کھلایا ہوا اندر آیا۔ ر سکتا وہاں نہیں ہے۔" کیا ؟ وہاں موجود تقریباً کبھی افراد نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی ان سب نے ہتھیار نکال لیے۔ میر اول کا اپ اٹھا۔ اب میرا بچنا محال تھا۔ لڑ کے ادیکھو سیدھی طرح بنا دو، تم کون ہوتا یہ کیا چکر ہے۔ ان کے باس نے مجھے کندھے سے پکڑ لیا۔ میں تقریباً بدحواس ہو چکا تھا۔ میں سوچ کر کیا آیا تھا اور اب میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اب مجھے مرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ مجھے کچھ کہتے دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور آٹھ دس لمبے تڑنگے آدمی عقابوں کی طرح ان لوگوں پر جھپٹے اور کچھ کرنے سے پیشتر ہی ان کو قابو میں کر لیا۔ میں حیران اور پریشان کھڑا ان کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے یوں کھڑا دیکھ کر ان میں سے ایک آدمی میری طرف لپکا۔ " کیسے ہو عثمان میاں ؟ میں گرتے گرتے بچا۔ ایک اجنبی کے منہ سے اپنا نام سن کر یہی ہونا تھا۔ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہے؟" ہمیں تو یہ بھی معلوم ہے کہ تمہارا گھر کہاں ہے؟ اور تمھارے والد صاحب کیا کرتے ہیں۔" اچھا میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ " لیکن! آپ دیکھنے میں تو انسان لگتے ہیں۔" " کیا مطلب؟"
آپ کو تو غیب کا علم آتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے آپ جنوں میں سے ہوں ۔ بھئی واہ عثمان میاں۔ بڑے شرارتی ہو تم ۔“ آپ کون ہیں اور یہاں کیسے پہنچے؟ میں نے بے چینی سے سوال کیا۔ تم کیا سمجھتے ہو بچے کہ وہ پیغام صرف تم نے ہی پڑھا تھا۔
تو کیا تو کیا آپ نے بھی وہ پیغام پڑھ لیا تھا۔ میں نے حیرت سے کو چھا۔ ہاں ، ہم ملٹری انٹیلی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا نام میجر شبیر ہے۔ ملک کا چپہ چپہ ہماری نظروں میں ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں کی تو مکمل نگرانی کر رکھی تھی۔ اسی نتیجے میں تم ہماری نظروں میں آئے۔ ہم نے جان بوجھ کر تمہیں آگے بڑھنے دیا۔ ہم چاہتے تھے کہ تم ان کو اپنی ذات میں الجھا لو تا کہ ہم بے خبری میں ان کو چھاپ لیں اور ایسا ہی ہوا۔“ تو کیا کتے کو بھی آپ نے ہی مارا تھا؟“ میں نے پوچھا۔ ہاں ، ہمارے ماہر نشانہ باز نے بے آواز رائفل کی مدد سے یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا اور ہم نے ہی اسے وہاں سے غائب کیا تھا۔“ اوہ ! خدا کا شکر ہے یہ لوگ پکڑے گئے ۔ میں نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔ دو لیکن تم نے بہت بڑی غلطی کی ۔ ایسے کام میں اس طرح منھ اٹھا کر نہیں چل پڑنا چاہیے۔ فرض کرو یہ پیغام اگر ہم نے نہ دیکھا ہوتا تو آج تمہاری موت یقینی تھی۔ پہلے تو کتے کے ہاتھوں نہ بچتے، اگر اس سے بچ جاتے تو پھر ان درندوں کے ہاتھوں سے نہ بچتے ۔"
سوری سرا لیکن شاید میری بات کوئی بھی نہ مانتا " بات منوانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ یہ معاملہ ملکی سلامتی کا تھا۔ تم ہم سے رابطہ کرتے تو ہم تمہیں کبھی مایوس نہ کرتے " وہاں کی مکمل تلاشی لی گئی تھی۔ کتنی ہی فائلیں اور خفیہ فلمیں برآمد ہوئی تھیں ۔ فائلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے میجر
شہیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا: اب یہ لوگ ہمارے ہاتھوں سے نہیں بچ سکیں گے ۔" کیا ہوا سر؟" میں نے پوچھا۔ ان کا بڑا خوفناک منصوبہ تھا ، پاکستان کی ڈائمنڈ جو بلی کی تقریبات کو تباہ کرنے کا ۔ یہ منصوبہ اگر کامیاب ہو جاتا تو ہر طرف آگ اور خون ہی نظر آتا۔ انھوں نے بم دھماکوں، ٹرینوں کے ٹکراؤ اور عوامی مراکز پر حملوں کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ و لیکن سر! انھوں نے اس طرح پیغام فضا میں روشن کر کے کیوں بھیجا ؟ " آج کل ہم نے سرحدوں پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کر رکھے ہیں۔ جب ان کا کوئی بس نہیں چلا تو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کو پیغام دینے کا یہ طریقہ نکالا اور گیس کی مدد سے فضا میں یہ پیغام لکھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے اس طریقے سے کوئی آگاہ نہیں ہو سکے گا۔ یہاں ان کے ایجنٹ کئی دنوں سے اس پیغام کے منتظر تھے۔ اور وہ بھی طاقت ور دور بینوں کی مدد سے اس پیغام کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہمیں بھی اطلاع مل چکی تھی اس لیے ہم بھی منتظر تھے اور تم تم نے تو اتفاق سے یہ پیغام نہ صرف دیکھ لیا بلکہ اس کو حل بھی کر لیا۔"
شکریہ سرا یہ لوگ پکڑے گئے ، ان کو چھوڑیے گا ا نہیں تو اب موت ہی ہماری قید سے رہائی دلا سکتی ہے۔ ان لوگوں کو گرفتار کر کے باہر جیپوں میں بٹھا دیا گیا تھا اور مجھے میجر شبیر نے میرے گھر کے سامنے اتار دیا۔
0 Comments