جس کو یہ یقین ہے کہ دنیا بہت جلد زائل ہونے والی ہے۔ اسے لازم ہے کہ اس کی رغبت چھوڑ دے اور جسے آخرت کے بقا اور دوام کا علم ہے اُس پر فرض ہے کہ اُس کیلئے کچھ کمائے اور جمع کر لے۔
عقل مند کو چاہئے کہ آخرت کیلئے اعمال صالحہ کمائے اور جان کے نکلنے اور قبر میں آنے سے پہلے وہاں کیلئے بہت سا زاد راہ جمع کر لے۔
کسی دل میں حکمت اور شہوت دونوں اکٹھی جمع نہیں ہوتی ہیں اور عصمت کے بغیر علم و حکمت کچھ کام نہیں آتے ۔ کمینہ آدمی کسی کی خیر خواہی اُسی وقت کرتا ہے۔
جب اُس سے کسی چیز کے ملنے کی اس ہو اور جب اُس دور ہو جائے تو پھر اپنے اصل کی طرف لوٹ آتا ہے۔
اگر عقل کے ساتھ علم اور علم کے ساتھ حلم ہو تو اس سے بڑھ کر کوئی اچھی چیز نہیں۔ ورع سے بڑھ کر زیادہ افضل کوئی عمل نہیں اور لالچ سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں۔
جس پر غضب اور شہوت غالب آ جائے اُسے عقل مند شمار نہ کرنا۔ تکبر، ظلم اور فخر کی خصلتوں میں ذرا بھر بھی خوبی نہیں ہے۔
جھوٹے شخص میں کوئی خیر و خوبی کا نام نہیں اور جھوٹے عالم کو بھلائی سے کوئی کام نہیں۔
شخص کسی گمراہ سے ہدایت چاہتا ہے وہ ہدایت کی راہ سے اندھا اور دور ہو جاتا ہے۔
جس شخص کا نفس شریف ہوتا ہے وہ اسے کمینے اور خراب کاموں کی طلب سے بجائے رکھتا ہے۔
مجخص علم کے سوا کسی دوسرے طریقہ سے ہدایت طلب کرتا ہے وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔
جس شخص کا باطن ظاہر کے مطابق اور اس کے افعال اقوال کے مطابق ہو جائیں وہ امانت کے حق ادا کر دیتا ہے اور اس کی راست بازی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے۔
جو شخص مال دنیا کو نا جائز طریقوں سے حاصل کرتا ہے وہ یقیناً اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
جو شخص طلب دنیا میں حد سے بڑھ کر کوشش کرتا ہے وہ محتاج ہو کر مرتا ہے۔
جو شخص حق کے سوا کسی اور ذریعہ سے عزت چاہتا ہے وہ ذلت اٹھاتا ہے۔
جو شخص زمانے کی نیرنگی اور اس کے حالات سے عبرت نہیں پکڑتا اور کسی کی ملامت سے سبق نہیں لیتا اور وہ بُرے کاموں میں لگا رہتا ہے وہ گھاٹے کے سودے میں رہتا ہے۔
جس شخص میں فضائل (اچھی صفات) کم ہوتے ہیں لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی نعمت ہے کہ انسان پر گناہوں کا کرنا دشوار ہے۔
بے شک وہ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالائیں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں اپنے نفس سے جہاد کریں، بارگاہ رب العزت میں نیک بندوں اور شہیدوں کا رتبہ پاتے ہیں۔
imran
علماء موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور جہلاء حیات میں بھی مردہ ہیں۔
احسان ایک ذخیرہ ہے اور کریم وہ ہے جو اس ذخیرے کو جمع کرے۔
عقل مثل ایسے کپڑے کے ہے جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ سچائی ایمان کا نہایت مضبوط ستون ہے۔
بجو کا رہنا عاجزی کی ذلت سے بہتر ہے۔ علم خدا تعالی کا بہترین عطیہ اور عمدہ زیور ہے۔
سچا دوست وہ ہے جو غائبانہ طور پر تیری خیر خواہی کرے۔ عقل مند وہ ہے جو اپنی خواہش نفس کی باگ کا مالک ہو اور وہی داتا ہے۔
جسے معرفت الہی حاصل ہو جاتی ہے وہ اپنے آپ کو دنیا سے روک لیتا ہے (یعنی برے کاموں سے کنارہ کشی کر لیتا ہے ) جو لوگوں کا امتحان و آزمائش کر لیتا ہے وہ ان سے الگ ہو جاتا ہے۔
جو لوگوں کی نسبت بدظنی رکھتا ہے وہ اپنے ہر ایک معاملہ کو خوب سوچ بچار سے کرتا ہے۔ پیش آتا ہے۔
جو کوئی واقعات کو غور و تامل کی نظر سے دیکھتا ہے وہ ان سے عبرت حاصل کرتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرتا ہے وہ لوگوں کے ساتھ فضل و احسان سے جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے وہ اس کے سب مطالب پورے کر دیتا ہے۔
حاسد کبھی خوش نہیں ہوتا اور عقل مند کبھی دھوکا نہیں کھاتا۔ شریف شخص کسی سے کینہ نہیں رکھتا اور مومن کسی سے حسد اور دشمنی نہیں رکھتا۔
سچا آدمی سچائی کی بدولت اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے جھوٹا اپنے مکر اور فریب سے پا نہیں سکتا۔ جو شخص بدکاروں کی حالت سے واقف ہے۔ اسے ضروری ہے کہ ان کے اعمال سے دور رہے۔
0 Comments