دل نے درد کی محفل لگا رکھی ہے
امتحاں ہوتا ہے محبت کا اس محفل میں
دل تھام کے گزرے اس گلی سے
کہیں وہ شخص بدنام نہ ہو جاۓ
ایک نشاء سہ ہو جاتا تجھے دیکھ کر
چہرہ گلاب آنکھیں شراب حسن کتاب تم ہو جناب
وہ میرے اداس دل کا حال پوچھنے آۓ ہیں
درد مسکرانے لگے حال دیکھ کر
ایک دن بکھر جائیں گے تیرے شہر
درخت پہ لگے پتوں کی طرح
محبت بکنے لگی بازروں میں
درد کی شفا بن کر
ایک دھواں سہ اٹھا ہے چراغ محبت سے
لگتا ہے وہ شخص آنے والا ہے
درد میں گزرے وہ لمحے
جو بیتے تیری یادوں میں
وہ شخص محبت کا انداز نرالا رکھتا تھا
اس گمنام شہر کے لوگوں میں
دل پہ اس کی یاد ظلم ٹھا رہی ہے
ہاۓ اس شخص کی محبت یاد ستاء ہے
0 Comments