امسز داؤد سیٹھ ابراہیم کے گھر پر پارٹی کے دوران اپنی
شناسا بیگمات کو بتارہی تھیں ۔ بھئی میں تو اپنے بیٹے کی عادتوں کی وجہ سے اتنی پریشان تھی۔ وہ ادھر ادھر سے چیز یں اٹھا کر پینٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیتا تھا۔ کہیں سے ہزار ہزار روپے کے نوٹ اٹھا کر رکھ لئے ، کہیں سے قیمتی گھڑی اٹھا کر رکھ لی۔ میں تو نفسیات کے لوکل ڈاکٹروں سے علاج کرا کرا کے تھک گئی ۔ آخر مسز کمال نے مشورہ دیا اسے نیو یارک لے جاؤ ، وہاں ایک بڑے مشہورماہر نفسیات ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے مشکل کیس حل کے۔
ہیں۔
تو پھر کچھ فائدہ ہوا؟‘ بیگم میز وانی نے پوچھا۔ ”ہاں بھئی ، کمال کا ڈاکٹر تھا۔ یہ امر یکی واقعی بڑے ز بر دست لوگ ہیں ۔اس نے تو چٹلی بجاتے میں الجھن دور کر دی ۔اس نے پہلی ملاقات میں ہی بتا دیا ، مسز داؤد! آپ کا بیٹا چور ہے۔
ایک کسان دوسرے کسان سے محو گفتگو تھا۔ ’وہ زمانے گئے جب کہا جاتا تھا کہ کاشت کاری کے لئے دماغ بے شک کمزور ہولیکن بدن مضبوط ہونا چاہئے ۔ آج کل کے نئے زمانے میں تو کھیتی باڑی کرنے کے لئے مضبوط بدن کے ساتھ ساتھ بڑا دماغ اور عقل بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ٹی وی پر کھیتی باڑی کے بارے میں طرح طرح کے اشتہار بھی چلتے ہیں اور محکمہ زراعت کے افسر آ کر طرح طرح کے مشورے بھی دیتے ہیں ۔اب یہ فیصلہ کسان کو اپنی عقل سے ہی کرنا پڑتا ہے کہ کون سے مشورے پر عمل کرنے سے کم سے کم نقصان ہو گا
جیل دارو غے کو بیٹھے بٹھائے ایک مشکل نے آن گھیرا۔
ایک قیدی اچا نک دل کے عارضے کا شکار ہو گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ فوری طور پر دل کا آپریشن کر دیا جاۓ۔ پچیس ہزار ڈالر اس پر خرچ ہو گئے ، آپریشن کامیاب رہا۔ قیدی کی زندگی تیزی سے معمول کی جانب لوٹ رہی تھی مگر اس کی جان بچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اسے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور بہت جلد اس کا خاتمہ بجلی کی کرسی پر ہونے والا ہے۔
پولیس نے ڈاکوؤں سے مقابلے کے بعد جنگل کا محاصرہ) ختم کیا تو ڈی ایس پی صاحب نے انسپکٹر سے پوچھا ” ہماری نفری پوری ہے نا ؟“ انسپکٹر نے اثبات میں جواب دیا تو ڈی ایس پی صاحب ذرا تشویش سے بولے ۔ تم نے اچھی طرح گنتی کر لی ہے نا ؟
جی ہاں ۔ میں نے خوب اچھی طرح گنتی کر لی ہے ۔ انسپکٹر نے وثوق سے کہا۔ ’شکر ہے۔ ڈی ایس پی صاحب نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کا مطلب ہے کہ میں نے جس بھاگتے ہوئے سائے کو گولی ماری ، وہ ڈاکو ہی تھا
دو دوست ملے۔ایک نے کہا۔ کمال ہے تم پیرس میں ہوتے ہوئے بھی کھانا خود پکاتے ہو ۔ کسی ملازمہ کو کیوں نہیں رکھ لیتے ؟
رکھی تھی ۔ دوست نے جواب دیا۔ لیکن اب میں اس سے شادی کر چکا ہوں اور اب اس کے حصے کا کھانا بھی مجھے پکا نا پڑتا ہے۔
ایک صاحب بڑے طمطراق سے رخصت ہو کر حج کے لئے روانہ ہوۓ۔ راستہ میں نیک خراب ہوگئی اور ایک شہر میں ڈیرے ڈال لئے ۔ دو ماہ بعد جب وطن واپس ہوۓ تو ملنے والوں پر یہ ظاہر کیا کہ حج کر کے آ رہے ہیں۔ لوگوں نے بڑے اشتیاق سے وہاں کی باتیں پوچھیں ۔ ایک صاحب نے کہا۔ حجر اسود کو تو آپ نے دیکھا ہوگا۔‘ کیوں نہیں ۔ کیا کہنے ان کے ۔ بڑی عظیم شخصیت ہیں ۔“ اجی شخصیت کہاں ۔ وہ تو پتھر ہے۔“ اچھا ، تو اب پتھر بن گیا ہوگا۔ جب میں نے دیکھا تھا اس وقت تو آدمی تھا۔
0 Comments